مفکر پاکستان، شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا: "نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر…تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں". شاید استحکام پاکستان پارٹی یہ بات بھول گئی، کہاں اقبال کے شاہین اور کہاں اتنی "قد آور" سیاسی شخصیات! کوئی میل نہیں بنتا! بصد ااحترام شاہین کا انتخابی نشان مانگنے کی خبر پڑھتے ہی شرمندہ سا ہوگیا، پہلے محترمہ فردوس عاشق اعوان کے نام کیساتھ سیکرٹری اطلاعات استحکام پاکستان پارٹی پڑھ کر عجیب سی کیفیت ہوئی، پھر یاد آیا پی ٹی آئی تو فقط اب عوام کے دلوں میں قید ہے، دوس عاشق اعوان بتا رہی تھیں: "شاہین کا انتخابی نشان رکھنے والی پہلے کی جماعت تحلیل ہو چکی ہے، امید ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے شاہین کا انتخابی نشان الاٹ کیا جائے گا، الیکشن کمیشن میں انتخابی نشان کی پٹیشن فائل کر چکے ہیں" اور میں اس دوران دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 9 اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد 1988 تک جب انھیں سزائے موت دئیے 9 سال بیت چکے تھے، انکی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو انتخابی میدان سے آؤٹ کرنے کیلئے آئی جے آئی بنانی پڑی، قریبا 11 سے 15 سال کے عرصہ تک بھٹو مرحوم کی حمایتی نسل اکثریت کے طور پر اس جہاں فانی میں موجود رہی اور اس طرح بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ کا سلسلہ چلتا رہا، پی ٹی آئی کے حمایتی ووٹرز کی اکثریت نوجوانوں، جوانوں اور متوسط عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ وہ ایک نسل جو ابھی 18 سال کی عمر کو نہیں پہنچی؛ وہ بھی پی ٹی آئی کے ووٹرز کی فہرست میں شامل سمجھیں، اس زاویے سے کیا چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاست سے مائنس کیا جاسکتا ہے؟ ہمیں اس سوال اور اس سے جنم لینے والے سیاسی بحران کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں، محض کسی جماعت کا نام استحکام پاکستان پارٹی رکھنے سے استحکام نہیں آسکتا، اگر ایسا ہوتا تو میرا ایک دوست سکول میں 10 لکھ کر آگے آدھ آدھ گھنٹہ صفر لکھتا رہتا تھا، آج وہ اتنی رقم کا مالک ہوتا اور ہم سب کھرب پتی بننے کیلئے یہی کلیہ اپناتے، موجودہ دنیا میں پاکستان کی ترقی اور معاشی و اقتصادی استحکام براہ راست جمہوریت سے جڑا ہوا ہے، اسکے بغیر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی، آخر آئی ایم ایف نے نویں جائزے کی قسط کے اجراء سے قبل زمان پارک کا کیوں رخ کیا؟ اس کے پس پردہ محرکات جاننے کی ٹھنڈے دل سے کوشش کی جاتی تو آج صورتحال بہت بہتر ہوسکتی تھی، بہر کیف ان حالات میں جہاں وطن عزیز کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آ رہی وہاں ان کی ہر ادا بھی مذاق بنتی چلی جا رہی ہے، جیسے مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو بغض اور حسد سے پاک ہوکر کام کرنا چاہیے، نواز شریف نے کہا کہ تنقید برائے تنقید نہیں؛ برائے اصلاح ہونی چاہیے، میرے حق میں اور خلاف لکھنے والے تمام صحافیوں کا شکر گزار ہوں, ن لیگ وہ واحد جماعت ہے، جس نے سب پہلے صحافیوں کے ضمیر کی سوداگری شروع کی، جس نے ساتھ نہ دیا، نوکریوں سے فارغ کروایا، اس ضمن میں متعدد سینئر صحافی متعدد مرتبہ قلم اٹھا چکے ہیں۔ ن لیگ اب اگر چاہتی ہے کہ نواز شریف کی واپسی کو امام خمینی کی واپسی جیسا پروٹوکول صحافی دیں، یہ ممکن نہیں، اگر ن لیگ یہ چاہتی ہے:جس کا اظہار سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے "نواز شریف کی واپسی کسی گارنٹی کا نتیجہ نہیں، واپسی کے سفر کیلئے کسی گارنٹی یا یقین دہانی کی ضرورت نہیں، ان کی واپسی پرضمانت کا عمل بھی ہو جائے گا". اسحاق ڈار فرماتے ہیں: "ڈالر کی اصل ویلیو 250 روپے ہے، ستمبر 2022 میں کہا تھا: ڈالر ریٹ 200 سے کم ہونا چاہیے، اب ڈالر کو 250 روپے کے قریب آنا چاہئے کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ ڈالر کی قیمت واپس اوپر جائے"، اسحاق ڈار کو ویسے 16 ماہ کی "حسن کارکردگی" کے بعد ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئں لیکن اگر ان کے دل و دماغ کے دامن میں تاحال دوبارہ وزیر خزانہ بننے کی جستجو ہے تو عوام کے ہاتھ کھڑے ہیں، بیجارے عوام آخر کیا کریں؟ اسکی سنی تو جاتی نہیں، نگران حکومت نے یکے بعد دیگرے مجموعی طور پر پٹرول 58 روپے مہنگا کیا اور جب عالمی منڈیوں میں تیل کے نرخ کم ہوئے، صرف 8 روپے لیٹر کمی کر دی گئی اور اگلے روز بجلی مہنگی کرنے کی خبر سامنے آ گئی، اب ایک مرتبہ پھر عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مزید 2.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، لندن برینٹ خام تیل 84 ڈالر جبکہ ویسٹ ٹیکساس خام تیل 82 ڈالر 31 سینٹ پر آگیا ہے، گزشتہ دس دن میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں دس ڈالر سے زائد کی کمی ہوچکی ہے, دیکھتے ہیں کہ کمی کے ثمرات پاکستانی عوام تک پہنچتے ہیں یا نہیں؟ تا ہم آئی ایم ایف کے نئے اقتصادی جائزہ سے پہلے کھاد کے کارخانوں کے لیے گیس مہنگی ہونے کا امکان ہے، خبروں کے مطابق وزارت پٹرولیم نے رواں ماہ گیس کی قیمت میں اضافے کی سمری تیارکرلی ہے، مہنگی کھاد مطلب شعبہ زراعت کی مزید تباہی! متعدد مرتبہ اس مطالبے کو اجاگر کر چکے ہیں کہ شعبہ زراعت پر توجہ دی جائے مگر افسوس ایک جانب معیشت کی مضبوطی کے دعوے اور دوسری جانب بنیادی انفراسٹرکچر سے عدم توجہی! ویسے گیس کا شعبہ پہلے ہی 2.7 کھرب روپے کے سود سمیت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، معیشت کی مضبوطی ان بنیادی عوامل پر توجہ کی متقاضی ہے، جمہوریت کا حسن ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام سے رابط مضبوط ہو اور ہر شعبہ توجہ حاصل کر سکے، مادر وطن میں استحکام؛ سیاسی استحکام سے نتھی ہے، نواز شریف کی خواہشات اور استحکام پاکستان پارٹی سے نہیں، معیشت جمہوریت کی طلبگار ہے۔