سیاسی حالات کا سورج سوا نیزے پر ہے ہم روز ایک فیصلہ کن موڑ سے گزرتے ہیں۔روز ایک بحرانی کیفیت ہمیں گھیر لیتی ہے۔ہر روز مورخ ہمیں تاریخ کے نازک اور مشکل دوراہے پر دیکھتا ہے۔سیاسی حالات کی گرما گرمی میں فروری جیسے دھیمے اور خوبصورت مہینے کو بھی تمازت سے دوچار کر رکھا ہے۔ وطن عزیز باقاعدہ ایک سیاسی اکھاڑا بن چکا ہے جہاں سیاست کے ماہر کھلاڑی بڑی مہارت چالاکی اور دور اندیشی سے اپنے اپنے سیاسی داؤ کے اس مار رہے ہیں اور ہر شخص کسی وننگ موو کا خواہش مند ہے مگرسیاست کی اس تماشا گری میں پاکستان اور عام پاکستانی ہار رہے ہیں۔الیکشن کے بعد اتنی الجھی ہوئی صورت حال درپیش ہے کہ اس ڈرامے کے ہدایت کاروں کو بھی اس کے سلجھا و کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ ڈرامے کا ڈائریکٹر اسی ادھیڑ بن میں ہے کہ ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں ہر سیاسی جماعت نے اپنی جگہ دھاندلی کا شور مچا رکھا ہے ۔ہارنے والے تو دھاندلی دھاندلی کرتے ہی ہیں۔ مگر یہاں تو جیتنے والے بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔الیکشن کے بعد امید تھی کہ پاکستان میں کچھ استحکام آئے گا اب صورتحال زیادہ گھمبیر اور غیر مستحکم ہو رہی ہے۔پل پل بدلتی صورتحال پر تجزیہ نگاروں نے تجزیوں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز تک یہی تجزیے ہو رہے ہیں۔تجزیوں میں اگر کسی کا ذکر نہیں ہو رہا تو وہ ہیں پاکستان کے عوام جو بے اختیار بیچارے پانچ برسوں میں ایک دن اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں اور باقی کے پانچ برس ان طاقتوروں کی سیاست کا تماشہ دیکھتے ہیں جنہیں وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔سو پاکستانی عوام اپنی طاقت کا اظہار کر چکے اور اب بے اختیار ہو کر پھر مہنگائی سے نبرد آزما ہیں۔عوام مہنگائی کے بے قابو جن کے شکنجے میں ہیں کنٹرول کی قیمتیں پھر سے بڑھ چکی ہیں۔ پہلے گیس کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا پر بکنے کے لیے صرف اور صرف سیاسی تماشہ گری کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں۔وجہ یہہے کہ عوام کے مسائل پر بات نہیں ہو رہی۔دوسری جانب عوام منتظر ہیں کہ الیکشن کے بعد کوئی ایسی حکومت بنے جس سے ان کی بہتری کے بھی دن شروع ہوں۔انتخابی نتائج کے مطابق کوئی ایک سیاسی جماعت مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں سو ایک قومی حکومت کی شکل بنتی نظر ارہی ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نئے بننے والے حکومت کس قدر مستحکم ہوگی؟ جواب بہت سیدھا سا ہے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ بالغ نظری کا مظاہرہ کریں اور اگلے پانچ سال کے لیے اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں کا محور پاکستان کے مفاد اور پاکستانی عوام کے مفاد کو رکھیں تو بہتر اور مستحکم پاکستان کے سفر آغاز ہو سکتا ہے۔عدم سیاسی استحکام کے باعث بہت سے کاروبار ایسے ہیں جن پر جمود طاری ہے اور ان کاروبار سے وابستہ افراد دیکھ رہے ہیں کہ کب پاکستان میں ایک مستحکم حکومت آئے۔ ایک کاروبار سے لاکھوں لوگ وابستہ ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اس طرح داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ سیاست سے بالاتر ہو کر تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت طے کرنا چاہیے۔مستحکم معاشی پالیسیوں کے لیے ضروری ہے کہ اگر حکومتیں بدلتی بھی رہیں تو معاشی پالیسیاں مستقل رہیں، تاکہ کاروبار میں استحکام پیدا ہو اور باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں کو بھی پتہ ہو کہ پاکستان میں حکومت بدلنے سے معاشی پالیسیاں نہیں بدلیں گی۔ میثاق معیشت کے تحت طے ہو جائے کہ انتہائی ضرورت کی بنیادی اشیاء باہر سے منگوانے کی اجازت ہو باقی ہر قسم کی اشیاء کو امپورٹ کرنے پر پابندی ہو وہ چیزیں جو پاکستان میں بنتی ہیں ان کو فروغ دیا جائے ہر قسم کے سامان تعیش کہ امپورٹ پر بھی پابندی ہو۔ پاکستان کے سیاست دانوں کو اپنے اندر پاکستانیت اور لوگوں کے احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے یہاں کا سیاسی نظام ایسا ہے کہ لوگ کروڑوں روپیہ الیکشن پر لگا کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اسی دن سے انکے پیش نظر یہی ہوتا ہے کہ الیکشن پر لٹایا گیا پیسہ ڈبل ہوکر واپس کیسے آئے۔پاکستانی حالات کے پیش نظر سیاست دانوں کو اس انتہا درجے کی خود غرضی سے نکلنا ہوگا۔سیاسی جماعتوں کے لیے احتجاج کرنے کے لیے بھی کچھ پیرامیٹرز طے کرنے چاہیے۔قومی شاہراہوں ،چوکوں اور اہم مقامات پر دھرنے دینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کے احتجاج کی اجازت صرف اسی صورت ہو جب اس سے عام آدمی کی زندگی متاثر نہ ہو۔ راستے بند نہ ہوں اور ٹریفک کا بہاؤ ہر صورت جاری رہے۔اگر ایسا احتجاج کوئی کرنا چاہے تو بسم اللہ!ماضی میں دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا اور کرنا نقصان ہوا۔ میرا بس چلے تو اس ہر ایک ریسرچ سٹڈی کراؤں۔ دھرنوں اور لانگ مارچ کی احتجاجی سیاست نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اگر اس کے اعداد و شمار سامنے آ جائیں توآپ ایسے سیاست دانوں سے نفرت کرنے لگیں جو ہمہ وقت احتجاج دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست کرتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کے دائروں سے نکل کر پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھیں۔کاش کہ اس بار سیاستدان خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں اعلی ظرفی اور کشاد ہ دلی کا مظاہرہ کریں۔ آپس میں لڑنے بھڑنے کی بجائے کشادہ دلی اور بالغ نظری سے معاملات حل کریں۔ کسی ایشو پر آپس میں کبھی بھی ڈیڈ لاک نہ ہونے دیں اور مکالمے کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھیں۔پاکستان کو سیاسی جماعتوں کی آپس کے ڈیڈ لاک نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔جمہوری حکومتوں میں اختلافات کا ہونا اور اس کا اظہار کرنا ایک قابل قبول عمل ہے لیکن ایک بات طے کر لی جائے کہ کوئی بھی سیاسی اختلاف ہو تو فیصلے میدان کی بجائے ایوان میں بیٹھ کر کیے جائیں، کاش سیاستدان اتنے میچور ہو جائیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نعرے لگا ر رہی ہیں،مستحکم پاکستان کے لیے عوام کا نعرہ بس ایک ہی ہے کہ ڈیڈ لاک نہیں مکالمہ میدان نہیں ایوان ! ٭٭٭٭