انتخابی مہم کے اختتامی ایام میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں تھانہ چودہوان پر دہشت گردوں نے رات گئے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دس پولیس اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوگئے، یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ، خیبرپختونخواہ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین شاہ ، نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی ، سابق صدر آصف زرداری ، سابق وزائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی ، شہباز شریف ، راجہ پرویز اشرف کے علاوہ مقامی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں وسیب سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار شہید ہوئے،اس واقعہ نے نہ صرف وسیب بلکہ پورے پاکستان کو غمزدہ کر دیا ،دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی وزیرستان ، بلوچستان اور ایران کے دہشت گردی کے واقعات جس میں وسیب کے مزدور قتل کئے گئے سے مطابقت رکھتا ہے۔ ایک عرصے سے بھارت اور افغانستان کی ایماء پر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اور امریکا کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ دہشت گرد استعمال کر رہے ہیں جس کے ثبوت بھی کئی بار سامنے آ چکے ہیں۔ افغان طالبان حکومت کو پاکستان کی طرف سے اس کا خاطر خواہ جواب ملنا چاہیے کہ افغان سر زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ، پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور کسی قسم کی جارحیت کا بھر پور قومی عزم اور فوجی طاقت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے مطابق افغان طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں مختلف دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور صرف گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کے پندرہ سو واقعات ہو چکے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا پس منظر میں جائیں تو امن و امان کی صورتحال زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتی ، گزشتہ چند دنوں کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے متعدد حملوں کے سبب سکیورٹی خدشات بڑھے ہیں ، ہماری سکیورٹی فورسز بھی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آپریشن کر رہی ہیں، گزشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے تین حملوں کو ناکام بنایا اور تین روز تک جاری رہنے والے کلیئرنس آپریشن کے دوران 24 دہشت گرد مارے گئے جبکہ چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے۔ گزشتہ ماہ 20 جنوری کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں باڑہ پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے، قبل ازیں 10 جنوری کو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں انڈس ہائی وے پر لاچی ٹول پلازہ کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر رات گئے دہشت گردوں کے حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد جاں بحق ہوگئے تھے،یہ تمام حالات و واقعات اہل وطن کے لیے تشویش کا باعث ہیں اور اس کا تذکرہ عوامی مقامات پر بھی ہوتا نظر آیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے جھوٹے وعدوں اور بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ الیکشن کی انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہے،انتخابی قوانین کے تحت الیکشن مہم کا وقت 6 اور 7 فروری کی درمیانی شب (رات 12 بجے) ختم ہوا،الیکشنز ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 182 کے مطابق انتخابی مہم کا وقت ختم ہونے کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی جلسے، جلوس، کارنر میٹنگ یا اس نوعیت کی سیاسی سرگرمی کا نہ تو انعقاد کر ے گا اور نہ ہی اس میں شرکت کرے گا، خلاف ورزی کرنے والوں کو 2 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگر ہم وسیب کی بات کریں تو موجودہ الیکشن میں بھی امیدواروں نے صوبے کے وعدے کئے ہیں ، شہباز شریف تو سرائیکی نہ آتے ہوئے بھی ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اجتماعات میں سرائیکی میں خطاب کرتے نظر آئے اور وسیب کو لاہور جیسا ترقی یافتہ خطہ بنانے کا اعلان کیا، پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی اور رانا محمود الحسن صوبہ کے قیام کی بات کرتے نظر آئے۔ ترجمان الیکشن کمیشن نے ووٹ کے لیے اصلی شناختی کارڈ کا ہونا لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زائد المیعاد شناختی کارڈ پر بھی ووٹ ڈالا جاسکے گا۔لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ ضابطے اور قوانین صرف دکھاوے کے طور پر ہوتے ہیں ، با اثر امیدوار اپنا کام دکھا جاتے ہیں،موجودہ الیکشن میں تو الیکشن کمیشن کے سب ضابطے اور قوانین یکطرفہ ہو چکے ہیں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ ریاست پیچھے چلی گئی ہے اور الیکشن کمیشن آگے آ گیا ہے۔ سیاست ، ریاست اور حکومت کے حوالے سے افلاطون کی کتابیں سیاسی نظریات پر کمال کا درجہ رکھتی ہیں، ایک کہاوت یہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتااور ایک روایت یہ ہے کہ جس بادشاہت کو یونانی جمہوریت نے کچل ڈالا تھا اس سے آگے یہ کہ اُسی یونانی جمہوریت نے استاد سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی ، سچ یہ ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کا ماضی اس کے مستقبل سے جڑا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا عرصہ کم اور آمریت کا زیادہ رہا ہے، وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں تین شخصیات کو بھر پور عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ان میں شیخ مجیب الرحمن ، ذوالفقار علی بھٹو اور موجودہ عہد کے عمران خان ہیں ، دو شخصیات کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں جہاں آمریت کے سیاہ دور رہے وہاں اچھی جمہوری حکمرانی بھی نہیں رہی ، عام آدمی کے مسائل آئے روز بڑھتے جا رہے ہیں ، کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے سلسلہ میں نواز شریف کو لایا گیاجس سے میاں برادران امیر سے امیر تر اور غریب مزید غریب ہوئے، ملک کی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھا، نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لایا گیا ، ساڑھے تین سالوں میں عام آدمی کو وہ کچھ بھی ریلیف نہ دے سکا، امن و امان کی صورتحال مزید ابتر ہوئی اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت ہچکولے کھانے لگی، عمران خان کے بعد پی ڈی ایم کو تھوڑے کے لیے لایا گیا تو مہنگائی نے غریبوں کی چیخیں نکلوا دیں، اب آزمائے ہوئوں کو پھر لایا جا رہا مگر سوال وہیں موجود ہے کہ غریب کو کیا ملے گا؟