سنگا پور محض 733مربع کلو میٹر پر مشتمل جزیرہے جو لگ بھگ دو سو برس قبل برطانوی تسلط میں آیا۔سال 1923 ء میں یہاں برطانوی نیول بیس قائم کی گئی تو سنگا پور جنوب مشرقی ایشیا میں عسکری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔جنگِ عظیم کے خاتمے پر برطانیہ نو آبادیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہونے لگا۔ سال 1959ء میں سنگا پور میں محدود خود مختاری کے ساتھ پہلی مقامی حکومت قائم ہوئی تو سنگا پور میںغربت و افلاس کا دور دورہ تھا۔ملیریااور ٹی بی جیسے مہلک امراض عام تھے۔خوراک کی قلت تھی جبکہ اسی فیصدآبادی گھروں سے محروم کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔کمیونسٹ آئے روز کی ہڑتالوں کے ذریعے سیاسی انتشاراور معاشی ابتری میںمزید اضافہ کر رہے تھے ۔لی کوان یو پہلے وزیرِ اعظم بنے تو انہوں نے ملائشیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ سال 1963میںبرطانیہ سے مکمل آزادی کے بعد سنگا پور اور ملائشیا کے مابین الحاق قائم تو ہوامگر محض دو سال کے بعد ہی ملائشین سیاستدانوں کی خواہش پر ختم ہو گیا۔ تاریخ میں ایک بڑی ریاست کی جانب سے اپنے ہی کسی حصے کو اس کی مرضی کے خلاف خود سے الگ کرنے کا یہ ایک منفرد مگر لی کیوان کے مطابق ایک مایوس کن فیصلہ تھا۔برطانیہ نے’ سویز کے مشرق‘میں تعینات اپنے دستوں کو سمیٹنے کی پالیسی پر عملدرآمد کا آغاز کیا توسنگا پور میں نیول بیس بھی بند ہو گئی۔ برطانوی نیول بیس کی بندش سنگاپور کی کمزورمعیشت کے لئے بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوئی۔ مستقبل سے متعلق بے یقینی اور سلامتی کو لاحق خطرات سے مغلوب بڑے ہمسائیوں میں گھری چھوٹی سی شہری ریاست نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو محض چند برسوں کے اندرغربت اوربیماریوں کے ساتھ ساتھ بقا کو لاحق خطرات کو شکست دیتے ہوئے خود کے لئے قوموں کی برادری میں اعلیٰ مقام پیدا کر لیا۔لی کے سنگا پور نے ثابت کیا کہ قومیں اپنے حجم سے عظیم نہیں بنتیں۔نا ہی کوئی مخصوص نظامِ حکومت قومی ترقی کا ضامن ہے۔درحقیقت قوموںکی عظمت کا راز اس کے افراد میں اتحاد، دیانت، تنظیم اور لیڈر شپ کے اعلیٰ معیار میں پنہاں ہے۔ لگ بھگ یہی درس ہمیں قائدِ اعظم محمد علی جنا ح نے75 برس پہلے دیا تھا۔سال 1965ء میں سنگا پور کی فی کس جی ڈی پی 517امریکی ڈالر زتھی،جو محض پچیس برسوں میں 11900ڈالرز تک پہنچنے کے بعدآج فی کس80000امریکی ڈالرز کے ساتھ دنیا میں ساتویں نمبر پرکھڑی ہے۔ محض57 برس قبل غربت سے اپنا سفر شروع کرنے والی چھوٹی سی شہری ریاست کے موجودہ معاشی اور معاشرتی اشاریوں کے پیش نظراُسے ’ کامیابی کی متحیرکر دینے والی داستان‘ کہا جاتا ہے۔ سال 1965ء میں خود مختاری پانے والی لی کی شہری ریاست کا برطانیہ، ہندوستان، چین اور بے شمار دیگر ریاستوںکی طرح کوئی ’شاندارماضی‘ نہیں تھا۔ نامور برطانوی مورخ ٹائن بی کا اندازہ تھا کہ شہری ریاستوں کا دور لد چکا ، چنانچہ سنگا پور کا کوئی’ درخشاںمستقبل‘ بھی نہیںہے۔محض انیس لاکھ کی آبادی کے حامل سنگا پور کے پاس تیل اور دیگر قدرتی وسائل تو درکنار پینے کا صاف پانی تک نہیں تھا۔سنگاپور ایک قوم نہیں بلکہ مختلف لسانی قومیتوں کا ملغوبہ تھی۔تاہم ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لی کیوان نے افرادی قوت کو ہی اپنا سب سے بڑا سرمایہ قرار دیا۔ ریاست کی کمزرویوں کو اس کی طاقت میں بدلنے کا عمل خود مختاری کے فوراََ بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ لی نے اقتدار سنبھالتے ہی بہترین دماغوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دی، جس میں تمام قومیتوں سمیت ایک ہندوستانی نژاد وزیر بھی شامل تھا۔تعلیم کے فروغ کے لئے قومی آمدنی کا غیر معمولی حصہ مختص کیا گیا۔جزیرے میں چینی، مالے، تامل اور انگریزی زبانیں بولی جاتیں۔کثیر النسل آبادی کو ایک لڑی میںپرونے کے لئے کسی ایک زبان کو پوری قوم پر ٹھونسے کی بجائے چار بڑی زبانوں کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے انگلش میڈیم سکولوں میں تمام مقامی زبانیں پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔عورتوں کی ورک فورس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی جبکہ غیر ملکی تارکینِ وطن کو معاشرے میں خوش آمدید کہا گیا۔ تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتے ہوئے آبادی میں تنوع (Diversity)کو طاقت میں بدلا گیا۔امریکہ جیسے معاشروں کے برعکس کہ جہاں افراد کی قابلیت، ترقی اور انفرادی مسرت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، سنگا پور میں من حیث القوم تربیت اور مشترکہ کا میابی کے تصور کو فروغ دیا گیا۔اُس دور میںجبکہ خطے کے دیگر ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خوفزدہ تھے،سنگا پور میں ’کاروبار کی آسانی ‘کے لئے اپنائی گئی پالیسی کی روشنی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہائوسنگ کے سیکٹر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ ایک ہی طرز کے گھروں کو مقررہ نرخوں پر شہریوں کے لئے دستیاب بنانے کے شفاف اقدامات کئے گئے۔ انڈونیشیا کی طرف سے مخاصمانہ پالیسی کے نتیجے میں درپیش دفاعی ضروریات کے پیش نظر اسرائیل کی مدد سے سنگا پور افواج کی بنیاد اسرائیلی طرز پرہی’ چھوٹی مگر مستعد فورس‘ کی صورت رکھی گئی۔ایک عشرے کے اندرہی جن کا شمار خطے کی بہترین عسکری افواج میںہونے لگا۔تاہم اس باب میں’ بریڈ، بٹر اور بلٹ ‘کے تکونی توازن کو ہمہ وقت ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ذہین اور قابل سویلین قیادت نے طاقتور افواج کو امورِ مملکت میں مداخلت کا کوئی موقع نہ دیا گیا۔سنگا پور میں ویسٹ منسٹر طرز حکومت اپنائے جانے کے باوجود انتخابات مغربی جمہوریت کے معیار پرپورا نہیں اترتے۔تاہم کسی مخصوص طرزِ حکومت پربے جا انحصار کی بجائے امورِ مملکت میں شفافیت،میرٹ اور ہنر مندی جیسے عوامل کے بل بوتے پر قومی استحکام اور فلاحی ریاست کے قیام کو فروغ دیا گیا۔ اگرچہ لی کا بیٹا اُس کے مستعفی ہونے کے بعدایک کے بعددوسرا وزیرِ اعظم منتخب ہوا، تاہم سنگا پور میں سیاسی خاندانوں اور اس کے نتیجے میں ’الیٹ اجارہ داری‘ کا کوئی تصور پنپنے نہ پایا۔خود مختاری کے فوراََ بعد سنگا پور میں سرعت کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے مالی بدعنوانی کو سنگین جرم قرار دیاگیا۔ مقدمات کی طوالت کا تدارک کرتے ہوئے مجرموں کو بلا امتیاز کڑی سزائیں سنائی گئیں۔ امریکہ اور چین جیسی قوتوں کے مابین توازن کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنا سنگا پوری دانش کا دائمی امتحان رہا۔ سنگا پور کے معمار لی امریکہ سے کئی معاملات میں شاکی جبکہ چین سے خائف رہتے۔تاہم دونوںانہیں اور ان کے ملک کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ چینیوں کے باب میں ایک بات مگر یاد رکھنے کی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جھک جھک کر ملتے ہیں۔ تاہم ان کے ہاںاحترام کی نظر سے ہمیشہ ان ہی قوموں کو دیکھا جاتا ہے جو قابل رہنمائوںاور محنتی افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔چینیوں نے سنگاپور کی ترقی کے ماڈل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ہم سے برسوں بعد آزادی حاصل کرنے والے سنگا پور سے ہم کس قدر سیکھ سکتے ہیں، اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔