نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں غزہ کی صورتحال پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے مشترکہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچے۔ بہت دکھ ہوا کہ او آئی سی کا اجلاس اتنا کامیاب نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہئے تھا۔ فلسطین کی صورتحال مسلمانوں کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہے، مسلمان ملکوں کو اس مسئلے پر ایک ہو نے اور بھر پور موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے 3 روزہ دورے کے دوران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے کے علاوہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے کئی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے اجلاس کے بعد اعلامیہ کی شکل میں آنے والا نتیجہ مایوس کن تھا،مذمتی بیانات سے غاصب صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا،اگر مسلم حکمران کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں ایسی کمپنیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہئے جو اپنے منافع سے ناجائز اسرائیلی ریاست کو حصہ دے کر نہتے اور معصوم فلسطینیوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرتی ہیں۔ غزہ کی صورتحال پر سعودی عرب میں ہونے والے او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی اجلاس پر حماس کے سینئر رہنما اور ترجمان اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ عرب اور مسلم رہنمائوں کو تین باتوں( نکات) پر توجہ دینی چاہیے۔ اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حملے اور فلسطینیوں کی نسل کشی رکنی چاہیے،غزہ میں انسانی امداد، طبی امداد اور ایندھن بھیجا جائے،مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کے حقوق کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔جنوبی افریقہ نے بین الااقوامی فوجداری عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے،جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نالیدی پاندور نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت سوز مظالم کا مرتکب ہو رہا ہے،خواتین اور بچوں کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیلی ظلم اور بربریت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے، لندن میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہونے والے مظاہرے میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد شریک ہوئے، مظاہرین نے اگر مگر کے بغیر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بھی ہزاروں افراد نے غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ریلی نکالی ، اسرائیل کے اپنے دارالحکومت میں ہزاروں شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر وزیراعظم نیتن یاہو کی خلاف احتجاج کرتے ہوئے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، غزہ پر مسلسل بمباری اور اپنے یرغمالیوں کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال رہا نہ کروا پانے پر اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ہی ملک میں شدید مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ مظاہرے میں مخالف جماعتوں پر کریک ڈائون اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ۔ اسرائیلی ظلم اور بربریت کے خلاف پاکستان میں بھی احتجاج اور جلسوں کا سلسلہ جاری ہے، سیالکوٹ میں لبیک فلسطین یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ 58اسلامی ممالک کے حکمران جاگ جائیں، مسلم ممالک کا اسلحہ کس کام کا ہے، مسجد اقصیٰ ، قبلہ اول ارض فلسطین کو بچانے کا یہی وقت ہے ، ان کاکہنا تھا کہ پاکستان عالم اسلام کا سب سے اہم اور ایٹمی ملک ہے جو منظم فوج رکھتا ہے، اتنی عظیم حیثیت رکھنے کے باوجود پاکستان نے وہ کام نہیں کیا جس سے اہل فلسطین توقع رکھتے تھے۔ غزہ پر 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی بمباری میں تاریخی اہمیت اور قومی ورثے کی حیثیت کی حامل 4 مساجد سمیت اب تک 59 مساجد شہید ہوچکی ہیں جبکہ 136 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو جزوی نقصان بھی پہنچا۔ 7 اکتوبر سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں 4 ہزار 324 بچے اور 2 ہزار 823 خواتین شامل ہیں ۔غزہ کی صورتحال پر دل خون کے آنسو روتا ہے، ظلم اور بربریت کی انتہاء کر دی گئی ہے۔قابض اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے الشفاء ہسپتال میں ٹینکوں سمیت داخل ہو کر راہداریوں میں موجود لوگوں پر فائرنگ کر دی ۔سوشل میڈیا پرالشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلیمہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی ہسپتال پر وحشیانہ بمباری میں 7نومولود بچوں سمیت 179 مریض ملبے تلے دب گئے، جو ان کی اجتماعی قبر ثابت ہوئی، ان افراد میں 29ایسے مریض تھے جو دل کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج تھے ۔ غزہ کا دوسرا بڑا ہسپتال القدس بھی ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہو چکا ہے،ترجمان ہلال احمر فلسطین کا کہنا ہے کہ طبی عملہ بد ترین حالات میں زخمیوں کے علاج کی کوشش کر رہا ہے۔ غزہ کے ہسپتالوں پر بمباری روکنے کیلئے برطانیہ کے ڈاکٹرز نے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے دفتر کے باہر احتجاج کیا اور بمباری رکوانے میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا،احتجاج کے دوران برطانوی ڈاکٹر الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر کا پیغام پڑھ کر آبدیدہ ہوگئیں۔غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکا کے یہودی بھی سراپا احتجاج ہیں ، امریکی شہر آکلینڈ کی سرکاری عمارت کے اندر یہودی مظاہرین نے دھرنا دیا اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ امریکی حکومت کے پانچ سو سے زائد اہلکار وں نے غزہ میں جاری فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر صدر بائیڈن کو احتجاجی خط لکھا ہے جس میں فوری جنگ بندی اور فلسطینیوں کے لیے سامان غزہ جانے کی اجازت دلوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ میں ایک ماہ سے زائد جاری اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بارہ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے،ہسپتالوں پر حملوں اور میتوں یا زخمیوں کو طبی مراکز میں داخل ہونے سے روکنے کے باعث وزارت صحت شہدا اور زخمیوں کے مستند اعداد و شمار جاری نہیں کر سکی ۔ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، دوا، پانی، کھانے سے محروم ہسپتالوں میں صورتحال انتہائی بھیانک ہوچکی ہے، جب تک مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف متحد ہو کر عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک اسرائیلی دہشت گردی کو نہیں روکا جا سکتا۔