جنگ کے نویں روز صبح جب یوکرائن کے سب سے بڑے اور دنیا کے دسویں بڑے انربودار کے نیو کلیئر پلانٹ کے قریب میزائل حملے کے بعد آگ بھڑک اٹھتی ہے تو امریکی میڈیا وار مشین دنیا کو جوہری خطرے سے خوف زدہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔صدر بائیڈن صدر زیلنسکی سے فون پر رابطہ کر کے جوہری خطرے کے غبارے میں مزید ہوا بھرتے ہیں۔ صدر زیلنسکی بھی فوری طور پر عالمی برادری کو چرنوبل جوہری پلانٹ کی تابکاری یاد دلاتے ہیں۔ یورپ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس پاور پلانٹ میں جوہری دھماکہ ہوتا ہے تو یورپ بھی یوکرائن کے ساتھ تباہ ہو جائے گا۔ ایک بھارتی چینل صدر بائیڈن اور صدر زیلنسکی کے بیانات کو لے کر جوہری خطرے کا پرچار شروع کر دیتا ہے۔ بھارتی چینل کی اینکر جوہری تابکاری کے خوف کی خبروں پر ماہرین کی مہر ثبت کرنے کے لئے بھارت کی جوہری کمانڈ کے ایک اہلکار کرنل سے ماہرانہ رائے طلب کرتے ہوئے سوال کرتی ہے کہ یوکرائن کے اس پاور پلانٹ میں دھماکے بعد جوہری تابکاری سے دنیا کو کتنا خطرہ ہے کس طرح روس نے پلانٹ پر حملہ کر کے یورپ سے بھارت تک کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ہمارے بچے بوڑھے کس طرح جوہری تابکاری سے متاثر ہوں گے۔ کرنل صاحب اینکر کو اپنے تائیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ متحرمہ دنیا بھر میں جوہری پلانٹس میں خودکار الارمنگ سسٹم ہوتا ہے جو خطرے کا اندازہ ہی نہیں لگاتا بلکہ حملے کی صورت میں شیٹ ڈائون بھی ہو جاتا ہے۔ ان کے خیال میں اس حملے کے بعد دنیا کو جوہری تباہی کے خطرے سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر اینکر تو کچھ اور کہلوانا چاہتی تھی۔ فوراً سوال جڑ دیا کرنل صاحب اگر دھماکے سے جہاں جوہری مواد رکھا ہے وہاں آگ لگ جائے تب تو دنیا تابکاری سے تباہ ہو سکتی ہے نا!کرنل پھر اینکر کو حوصلہ دیتے ہیں کہ بی بی چرنوبل حادثے کے بعد پوری دنیا کے جوہری مواد کی حفاظت کے لئے فول پروف بندوبست کئے گئے ہیں۔ جوہری مواد جن بنکرز میں ہوتا ہے ان کی دیواریں کنکریٹ سے اس قدر موٹی بنائی جاتی ہیں کہ بمباری سے بھی تباہ نہیں ہو سکتیں مگر اینکر ان کی بات سننے کے بجائے سائرن بجا کر اگلی بریکنگ نیوز کی طرف چلی جاتی ہے۔ بھارت ہی کیوں امریکہ اور یورپ کا میڈیا بھی یہی کھیل کھیل رہا ہے یورپ کے عوام کو جوہری جنگ کے خوف میںمبتلا کر کے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اہم سوال مگر یہ ہے کہ امریکہ کی دشمنی تو چین اور روس سے ہے۔ یورپ اور نیٹو تو امریکہ کے اتحادی ہیں بھلا امریکہ اپنے اتحادیوں کو کیوں ہراساں کرے گا؟ اس سوال کا جواب ولادیمیر پوٹن کے 2000ء میں انٹرنیشنل سٹیج سے خطاب میں ہے انہوں نے یورپی رہنمائوںسے کہا’’ میں اپنے ملک کا یورپ کے بغیر تنہائی میں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میرے لئے نیٹو کو روس کے دشمن کے طور پر دیکھنا بہت مشکل ہے‘‘۔ امریکہ پر پوٹن کا یہ بیان بم بن کر گرا۔ امریکہ اس کی توقع بھی نہیں کر سکتا تھا۔پوٹن کے بیان کے بعد نیٹو اور روس نے ایک دوسرے سٹریٹجک پارٹنر کے روپ میں دیکھنا شروع کیا۔ گریٹر یورپ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ فرانس کے صدر متراں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو اس بات پر 1980ء میں ہی قائل کر چکے تھے کہ یورپ کو متحدہ جرمنی کے غلبے سے بچانے کے لئے روس کو یورپ میں شامل کرنا ضروری ہے۔روس اور یورپ کی قربت کا ہی نتیجہ تھا کہ یورپی یونین نے ڈالر کے مقابلے میں یورو کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ یورپی یونین نے امریکہ کے بجائے یورپ کی حفاظت خود کرنے کے لئے یونین کی فوج کو مضبوط کرنے کے لئے انتظامات شروع کئے۔ گزشتہ چند برس پہلے تک عالمی سطح پر یہ بات محسوس کی جا رہی تھی کہ نیٹو کی حیثیت مردہ گھوڑے کی سی رہ جائے گی۔امریکی پراپیگنڈا مشین نے پہلے برطانیہ کے عوام کویورپی یونین سے الگ کرنے پر ابھارا، پھر یورپ میں اختلافات کو ہوا دی پراپیگنڈا کے زور پر جمہوری انداز میں حکومتوں کو عوامی دبائوبڑھایا گیا۔ مگر ہدف کے لئے روس کو اس حد تک مجبور کرنا مقصود تھا کہ وہ یورپ کے کسی ملک پر حملہ کرے۔قرعہ فال یوکرین کے نام نکل آیا۔ 2014ء سے روس کو یوکرائن پر حملے کے لئے مجبور کیا جا رہا تھا جو 24فروری کو ممکن ہوا۔ گزشتہ روز صدر زیلنسکی نے کہا ’’ یوکرائن نہیں بچاتاتو یورپ بھی نہیں بچے گا ‘‘صدر زیلنسکی نے خوفزدہ کرکے یوکرائن کو نیٹو ممالک میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے یوکرائن کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے اور یوکرائن کو نو فلائی زون قرار دینے کا مطالبہ ہی مسترد کر دیا۔ نیٹو کے اس بیان کے بعد ممکن تھا کہ زیلنسکی اپنا رویہ تبدیل کرتے مگر امریکہ ایسا کب چاہتا ہے، فوراً امریکی وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن نے ’’ یوکرین روس کو جنگ میں ہرا سکتا ہے‘‘ کا دعویٰ کر کے ایک بار پھر زیلنسکی کے غبارے میں ہوا بھر دی۔ یہ معاملہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں تقریباً پوری دنیا کے لوگوں کی ذہن سازی امریکی اہداف کے پیش نظر کی جا رہی ہے۔ یوکرائن نے جن روسی خفیہ دستاویزات کے ہاتھ لگنے کا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق بھی روس نے یوکرائن پر قبضے کے لئے 15دن کا ہدف مقرر کیا ہے۔ مگر عالمی اوربھارتی میڈیا گھنٹوں میں یوکرائن فتح نہ ہونے کو روس کی شکست سے تعبیر کر رہا ہے۔ امریکی پراپیگنڈا مشین اس قدر زہر آلود ہتھیار ہے کہ جس ملک پر جنگ مسلط کی گئی اس ملک کے عوام کے ذہنوں کو بھی پراپیگنڈا کے زور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ روس یوکرائن میں حکومت تبدیل کر بھی لے تب بھی یورپ میں امریکی جنگ ختم نہ ہو پائے۔ اس مقصد کے لئے فرانس، جرمنی اور یورپی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں ہلکے ہتھیار یوکرائن کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد یوکرائن کے سحر زدہ دماغ امریکی مہربانیوں سے ملنے والے اسلحہ کو اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کر کے خودکو خانہ جنگی سے تباہ کر لیں ۔یہ کھیل لیبیا اور یمن کے بعد یوکرائن اور پھر مشرقی یورپ کے بعد باقی ماندہ یورپ کو خوف کے سائے میں امریکہ کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور کرنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔اس کا ادراک فرانس کو بھی کسی حد تک ہے مگر یہ پراپیگنڈا مشین کازور ہے کہ کیا فرانس ،کیا بھارت، کیا تیسری دنیا کے ممالک ،کوئی بھی امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔البتہ ایک احساس ضرور موجود ہے جس کا ثبوت جنرل اسمبلی میں 35ممالک کا روس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب ہے۔(ختم شد)