الیکشن2024 ء جوں جوں نزدیک تر ہورہے ہیں ۔اسی قدر متنازع بھی ہوتے جارہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلے الیکشن ہیں، جس کی ساکھ ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے ۔الیکشن والے دن اور اس کے بعد کیا ہوگا ۔اس کا جواب گہری تشویش کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ سیاست دان ہوں یا عوام ،تجزیہ نگار ہوں یا حکومتی اہلکار امید و بیم کی کشمکش میں نظر آتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں اور طرز عمل سے اس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکے ہیں۔ الیکشن کے پہلے مرحلہ میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے شفاف الیکشن کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔جس بڑی تعداد میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ہیں، اس نے حیرت زدہ کردیا ہے۔اس فیصلے کے خلاف اگرچہ اپیل کا حق موجود ہے مگر تعداد اور تعلق کے تناظرمیں دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس جماعت کے لئے الیکشن میں حصہ لینے کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔پہلے امیدواروں کے کاغذات جمع کرانا ہی ایک مشکل مرحلہ بنادیاگیاتھا تو اب ان کا اتنی بڑی تعداد میں استردادالیکشن کو یکطرفہ بنا نے کی کارروائی سمجھا جارہا ہے۔ یہ طرز عمل اور فیصلے کسی کے لئے بھی سودمند نہیں ۔ان کے لئے بھی نہیں جن کی جیت کے امکانات اس طرح کے فیصلوں سے پیدا کئے جارہے ہیں۔ عوامی حمایت کے بغیر کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت در اصل اس کی سیاسی ہار ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بنیادی رمز سمجھنا چاہیئے ۔ آج اگر کسی سیاسی جماعت کے لئے اس طرح مشکلات پیدا کی جارہی ہیں تو کل یہ صورتحال کسی دوسری جماعت کو بھی در پیش ہو سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو آواز اٹھانی چاہیئے۔ (اگرچہ اس کے امکانات کم ہی ہیں) یہ بات یاد رکھی جانی چاہیئے کہ اس طرح کے اقدام سے جب الیکشن کے نتائج رائے عامہ کے بہت زیادہ برعکس ہوں تو پھر 2024 میں1977 جیسی صورتحال کا پیدا ہونا خارج از امکان نہیں ۔ اس کا ہرگز اعادہ نہیں ہونا چاہیئے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کا عمل شفاف اور غیر جانبدارانہ ہو ، عوام کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی آزادی ہو ،الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کے حصہ لینے کے یکساں مواقع موجود ہوںاور انتظامیہ کسی طرح بھی الیکشن پر اثر انداز نہ ہو۔ آج ریاست جن مشکلات کا شکار ہے اندرونی اور بیرونی خطرات نے اسے جس طرح گھیر رکھا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہر اس اقدام سے باز رہا جائے جس سے صورتحال مذید خراب ہونے کا امکان ہو ۔ ریاست کو پہلے ہی داخلی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ بلوچستان کی صورتحال اضطراب سے آگے جاچکی ہے اسے جس طرح قومی معاملات اور مباحث میں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ باعث تشویش ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق خواتین پر مشتمل جس لانگ مارچ کا آغاز کوئٹہ سے ہوا تھا وہ موسم اور انتظامی سختیوں کے باوجود اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دئے ہوئے ہے ان کے مقاصد کی نوعیت سے اختلاف ممکن ہے مگر انہیں توجہ کے ساتھ سنا جانا چاہیئے۔ اب بات کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کو الیکشن سے باہر رکھنے کی نہیں رہی۔ اب سوال وفاق کی سلامتی کاپیدا ہوچکا ہے ۔ اس کے پچیس کروڑ شہریوں کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ تاریخ کے صفحات میں ریاست اور اس کے فیصلہ سازوں کے مقام کا تعین ہونا ہے۔ایک ایک قدم احتیاط کا متقاضی ہے ہر فیصلہ دوراندیشی کے ساتھ ہو اور ریاست کے عوام کے مفاد میں ہو یہ وقت کا مطالبہ ہے۔سیاست دانوں اور ریاست کے تمام اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کی موجودہ نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جس سے سیاست اور ریاست کے مستقبل پر چھائی ہوئی دھند صاف ہو سکے۔سر دست فروری میں ہونے والے الیکشن کے معاملات کو ہی اگر درست اور شفاف طریقے سے نمٹا لیا جائے تو یہ ایک اہم اور مثبت پیشرفت ہوگی۔پاکستان مزید کسی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔معیشت کی بحالی کا انحصار ایک مستحکم سیاسی حکومت کے قیام اور اس کے تسلسل پر ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب الیکشن کا انعقاد شفاف ہو اور جس پر عوام کا بھرپور اعتماد ہو۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ اختصاص رہا ہے کہ یہاں الیکشن اور ان کے نتائج کبھی بھی جمہوری سیاسی نظام کے لئے خوش آئند نہیں رہے۔ ابتدا ہی سے اس کے شفاف انعقاد کو ممکن نہیں بنایا گیا ۔اپنی پسند کے نتائج کی خواہش نے ہمیشہ اس عمل کو متاثر کیا ۔ پسندیدہ نتائج تو ضرور حاصل کئے جاتے رہے مگر اس کی قیمت سیاسی اداروں کی شکستگی اور کمزوری کی صورت چکائی گئی۔ 1951 میں پنجاب صوبائی اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات سے 2018 ء میں ہونے والے انتخابات تک سب ہی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ توجہ طلب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ کیا پاکستانی سیاست کو انتخابات راس نہیں ؟ کیا سیاست دان ذمہ دار ہیں ؟ کیا ریاستی ادارے ( عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج ) جمہوری سیاسی اداروں کو پنپنے نہیں دیتے یا پھر پاکستان کے سماج کی بنت ہی ایسی ہے جس میں جمہوری سیاسی شعور کی افزائش ممکن نہیں ۔یہ سارے سوال اہم ہیں ۔جمہوری سیاسی عمل میں تعطل اور رکاوٹوں میں یہ سب ذمہ دار ہیں ۔ ان سب کی مشترکہ ( ملی بھگت) حکمت عملی سے ہی ریاست کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہتاہے ۔ ایک بار پھر انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے ۔پھر وہی پرانے اطوار نت نئے انداز سے آزمائے جارہے ہیں انتخابات اور ان کے نتائج کو اپنی پسند اور مصلحت کے مطابق بنائے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کسی کو سینے سے لگایا جارہا ہے اور کسی کو دیوار سے ۔یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ۔یہ ماضٰی میں بھی غلط تھا اور آج بھی درست نہیں کل بھی اس کے اثرات ریاست کے لئے اچھے نہیں رہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ اب بھی یہ ریاست کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن ،نگراں حکومت ، عدلیہ اور سیکورٹی سے وابستہ تما م اداروں کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کے عمل کو شفاف رکھنے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں ۔یہ ریاست کے مستقبل اور استحکام کے لئے بہتر ہوگا ۔بس اتنی سی گزارش ہے !!