فلسطین اب ایک مذہبی مقدمہ نہیںرہا بلکہ انسانی سانحے کا روپ دھار چکا ہے۔ تاریخی طور پر عرب اسرائیل تنازعے کے باب میں دنیا دو واضح حصوں میں تقسیم رہی ہے۔ایک طرف جبکہ امریکی قیادت میں مغربی دنیا اسرائیل کی طرفدار رہی ہے تووہیں دوسری جانب عرب ممالک سمیت مسلم دنیا فلسطینیوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔ یقینا سرد جنگ اور بعد ازاں امریکہ چین مخاصمت کے محرکات بھی اس گروہ بندی پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔تاہم 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ میں بڑھکنے والی آگ نے دنیا میں ایک نئی گروہ بندی کو جنم دیا ہے۔اس نئی تقسیم کے مطابق جہاں اسرائیل کے ساتھ دنیا بھر کے حکمران طبقات،الیٹ دانشور،ارب پتی کاروباری ادار وں کے مالکان اور دولت کے سوداگر کھڑے ہیں تو وہیں فلسطینیوں کی حمایت اس بار اسلامی دنیا ،روس اور چین تک محدود نہیں رہی ،بلکہ حیران کن طور پر اس تاریخی قضیے کے مظلوم فریق کی حمایت میں ایک بالکل نیا’گروہی ردعمل‘ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے بے رحم حکمران گروہ نے جب غزہ کے شمال میں ظالمانہ جنگی جرائم کا آغاز کیا تویقینا انہیں اس رد عمل کا اندازہ نہیں ہو گا۔ہماراخیال تو یہی ہے کہ خود صدر جو بائیڈن کو بھی اندازہ نہیں تھاکہ اس بار اسرائیلی جنگی جہازوںکی غزہ میں ایک ہسپتال پر بمباری اور اس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زیادہ بے گناہ نہتے انسانوں کی ہلاکتوں کے باوجود اسرائیل کی سفاک امریکی طرفداری پر دنیا کا ردعمل مختلف ہو گا۔تاہم یاد رہے کہ یہ دنیا کہ جس کے تیور بدلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ان عرب بادشاہوںپر مشتمل نہیں کہ جن کے آبائواجداد نے جنگ عظیم اوّل کے بعد یورپ کے ’مردِ بیمار‘ کے دم توڑتے جسم سے اپنا اپنا پائونڈ کاٹنے کے لئے دوڑ دھوپ کی تھی اور نتیجے میں اسرائیل کا بیج بونے میںکردار ادا کیا تھا۔اس بدلی ہوئی دنیا سے مرادچندایک کو چھوڑ کر پچاس پچپن مسلمان ریاستوں کے وہ حکمران بھی نہیں کہ امریکی کا سہ لیسی کی بناء پر جو اپنی مرضی سے اپنے ابرو ئوںکو بھی جنبش دینے سے قاصر ہیں۔اس باب میں اقوامِ متحدہ،روس یا چین کا رد عمل بھی ماضی سے مختلف نہیں۔یہ نیا ردعمل کہ جو اس مضمون میں زیرِ نظر ہے دنیا بھر کے اُن نوجوانوں کی طرف سے دیکھنے میں آیاہے کہ جو اس وقت بلاتفریق مذہب اوررنگ و نسل اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی دارلحکومتوں میں سراپا احتجاج ہیں۔ جب دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ کہلائے جانے والی غزہ کی محدودپٹی کے غیر انسانی محاصرے کے اندر گھرے ہوئے نہتے انسانوں پر اسرائیلی بمباری جاری تھی تو ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف آوازیں حکمران طبقات اور الیٹ دانشوروں کے محلات سے نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے شہروں کی گلیوں اور چوراہوں سے اٹھی تھیں۔ جب حماس کی کارروائیوں میں مبالغہ آرائی اور بے جا اسرائیلی ہلاکتوںپر توالیٹ مغربی میڈیانے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا مگر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی رپورٹنگ پر سخت پابندی تھی۔جہاں خود اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی تنگ پٹی میں ہزاروں معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے لقمہ اجل بن جانے کے باوجود جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداران تو بُت بنے بیٹھے رہتے ، تو وہیں مغربی ملکوں کے لاکھوں عام شہری سڑکوں چوراہوں پر’فلسطین کی آزادی‘کے فلک شگاف نعرے بلند کر تے نکلتے رہے۔ مسلمان ملکوں میں نہیں، امریکہ، فرانس، برطانیہ، بیلجیئم، اٹلی اور جرمنی میں لاکھوں کی تعداد میں شہری جمع ہوتے اور اسرائیلی مظالم پربلا رنگ ونسل سراپا احتجاج بنتے۔ امریکہ کے اندر تو ایک اور دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ایک ’غیر اسلامی‘ تنظیم ’بلیک لائف میٹرز‘ کی جانب سے اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا کھل کر ساتھ دیا گیا۔ دوسری طرف دنیا بھر کے حکمران طبقات کی جانب سے ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘والا رویہ اپنایا گیا۔ چنانچہ جہاں ان الیٹ گروہوں کے ترجمان نشریاتی اداروں نے فلسطینیوںکے حق میں بات کرنے والے معتبر صحافیوں کو ’دہشت گردوں‘ کا حامی قرار دے کر نوکریوں سے نکالنا شروع کردیا تو وہیں الیٹ گروہوں کے مفادات اور سٹیٹس کو کے نگہبان دانشور وں اورتبصرہ نگاروں نے چوک چوراہوں میں اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرنے والوں کو ’حماس کا حمائتی‘ کہہ کر پکارناشروع کر دیا۔ فرانس ، جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں نے اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ۔ جرمنی کے باب میں تو یہ رویہ قابلِ فہم ہے کہ ان کی پیٹھ پر ماضی کا بوجھ ہے، تاہم آزاد دنیا کہلائے جانے والے دیگر مغربی ممالک کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ ہم نے دیکھا کہ برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں یونیورسٹیوں سے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والے طلباء کو نکالے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکہ میں دنیاکی صفِ اوّل میں شمار ہونے والی ہاورڈ یونیورسٹی میں اسرائیلی مظالم کے خلاف 33تنظیموں نے متفقہ قراد داد پاس کی تو بڑے امریکی کاروباری اداروں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس قراد داد پر دستخط کرنے والے طلباء کے نام مانگ لئے۔ امریکی صدر سمیت اہم مغربی ممالک کے سربراہوں یا ان کے نمائندوں نے اسرائیل کے دوروں کی شکل میں نیتن یاہو سے غیر مشروط یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔اس دوران ترکیہ اور ایران جیسی مستنثیات کو چھوڑ کر مسلمان ملکوںمیں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے۔ خود ہمارے ہاں جبکہ اسی فیصد آبادی اور بالخصوص نوجوانوں کی ترجما ن ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں، جماعتِ اسلامی کے چند مظاہروں کو چھوڑ کر کسی سیاسی جماعت میں تاب نہیں کہ وہ امریکی چھتری کے نیچے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے والے اسرائیلی غنڈوں کے خلاف آواز بھی اٹھاسکے۔ اندریں حالات ایک اجمالی جائزے کے بعد جو تصویر ہمارے سامنے ابھرکر آتی ہے اس کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کا تاریخی مقدمہ اب نا تو اسرائیل اور عرب تنازعہ رہ گیا ہے اور نا ہی اسے اسلام اور یہودیت کے مابین محض مذہبی مخاصمت کا ایک لا متناعی سلسلہ قراردیا جا سکتا ہے۔ہمارا خیال تو یہ ہے کہ مغربی دنیا کہ جہاں کئی پرانی نسلیں ’سفید آدمی کے کندھوں پر بارِ ذمہ داری‘کا تصور لئے پروان چڑھی تھیں،اُنہی معاشروں کی نئی نسل بالخصوص یونیورسٹی طلباء نے محکوم قوموں پر ظلم و جور کے نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اندازہ تو یہ ہے کہ یہ تقسیم صرف مغربی معاشروںتک محدود نہیں رہی، دنیا بھر میں دکھائی دے رہی ہے۔جہاں ایک طرف الیٹ طبقات صف آراء ہیں تو دوسری جانب یونیورسٹیوں کے طلباء سمیت عام شہری کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ تقسیم ہے کہ جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم اس باب میں ہندوستانیوں کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں۔مہذب معاشروں کی جانب سے مذہبی تفریق سے اوپر اٹھ کر مظلوم کا ساتھ دیئے جانے کے رویئے کے برعکس کروڑوں بھارتی سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت میں محض اس لئے سرگرمِ عمل ہیں کہ غزہ میں مارے جانے والے مسلمان ہیں۔