بات چلی تھی باجوہ ڈاکٹرائن سے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران کے دور میں جنر ل باجوہ نے معاشی محاذ پر بہت کاوشیں کیںمگر معیشت پھر بھی غوطے کھاتی رہی۔آئی ایم ایف پلس یا آئی ایم ایف مائنس۔بات بگڑتی ہی رہی۔پی ڈی ایم کی حکومت تھی۔آئی ایم ایف کا شکنجہ تھا اور خاک نشینوں کی چیخیں۔سب سوچ رہے تھے کہ معاشی عدمِ استحکام،سیاسی اتار چڑھائو،خارجہ پالیسی،سلامتی کے تصورات پلس سوشل اور ریگولر میڈیا۔ایسے میں نئے سپہ سالار سے بہت سی توقعات جانے انجانے وابستہ ہو گئیں۔نئے چیف پرانے چیف کی نسبت میڈیا سے درست طور پر گریزاں رہے ۔ایسے میں جب اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں اُن کا یوتھ سے مکالمہ ہوا تو اُس کا تجزیہ پاکستان کے ہر قسم کے مسائل پر روشنی ڈال سکتا ہے۔پہلے ذرا یوتھ سے مکالمے پر ایک ہلکی سی نگاہ۔پوچھا گیا کہ کیا فوج میں بُرے لوگ نہیں؟چیف نے کہا:ہر ادارہ اپنے معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔جیسا سماج ویسے ادارے۔پھر نوجوان نسل کو کہا:گورننس ورچوئل نہیں ہوتی،زمین پر کی جاتی ہے۔سیاست پر سوال آیا تو کہا:میں چیف بننے سے پہلے آئی ایس آئی اور ایم آئی کا چیف تھا۔سیاست کو خوب جانتا اور سمجھتا ہوں۔ہر سیاست دان پاور میں آنا چاہتا ہے۔جو نہ حاصل کر سکے وہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔کیا انڈیا میں اور برطانیہ میں تحریک عدمِ اعتماد نہیں آتی؟کیا ہارنے والا سڑکوں پر آ جاتا ہے؟ ایک نوجوان نے پاکستان کے پڑوسیوں سے تعلقات پر سوال کر دیا۔چیف نے کہا:ایران ہمارا برادر ملک ہے مگر خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔یہ پیغام انڈیا اور افغانستان دونوں کے لیے بھی ہے۔اس سے چند روز پہلے چیف کہہ چکے تھے کہ ہندوستان کے ساتھ ہماری مفاہمت نہیں ہو سکتی۔اس کا ایک پسِ منظر تھا۔بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر سابق سپائی ماسٹر ہیں۔وہ چند روز قبل کہنے لگے ہم پاکستان کو نہیں چھوڑیں گے،آزاد کشمیر بھی چھین لیں گے اور بلوچستان کو بھی الگ کر دیں گے۔بھارت میں الیکشن سر پر ہیں۔یہ دھمکی انتہا پسند ہندوئوںکا ووٹ لینے کے لیے بھی ہو سکتی تھی اور پاکستان کو ڈرانے کے لیے بھی۔اسی تناظر میں چیف نے بھارت کو سگنل دیا۔ایران نے پاکستان پر جو میزائیل حملہ کیا تھا وہ بھی ایک Feelerتھا۔سلامتی کے ذمہ دار حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ایرانی حملے پر پاکستان کا ردِ عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ایران سے بیٹھ کر بھی بات ہو سکتی تھی۔مگر یہ جوابی حملہ ایران پر تھا اور پیغام بھارت کے لیے تھا۔جنرل باجوہ جیو پالیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس کی بات کرتے تھے تو بھارت ا س کا غلط مطلب لے کر مزید جارحیت پر آمادہ ہو جاتا تھا۔موجودہ چیف بھی جیو اکنامکس کے قائل ہیں مگر بھارت کے آلودہ خیالات کی کیمسٹری سمجھ کر۔ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر کہا کہ پاکستان میں سیاسی بے یقینی ہے۔جواب:ایسی کوئی بات نہیں،انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔اختیار آپ کے پاس ہے، آپ کیسے لوگ منتخب کرتے ہیں۔ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے ماں بیمار ہو تو کیا آپ اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟موجودہ چیف دین پر بہت گہرا فہم اور ادراک رکھتے ہیں۔اس لیے وہ سوشل میڈیاکو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں۔کیسے؟وہ اسے قرآن کی رُو سے خلاف دین قرار دیتے ہیں۔اُن کے مطابق یہ ذہنی انتشار اور اشتعال کا سبب ہے ۔اس لیے سوشل میڈیا شیطانی میڈیا ہے۔یہ تحقیق کے بغیر الزام عائد کر دیتا ہے۔دوسروں کا مذاق اُڑاتا ہے۔ایک دوسرے کو برے القابات سے نوازتا ہے۔یہ مخالفوں کو گالی دیتا ہے۔غیبت کرتا ہے۔بدگمانی پھیلاتا ہے اور اس پلیٹ فارم سے95%جھوٹ بولا جاتا ہے۔اس سے کنفیوژن پھیلتا ہے۔آج کے پاکستانی نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ کنفیوژن ہے۔Clearity of Mind نہیں۔پاکستان وسطی ایشیاء کا گیٹ ہے،ایٹمی طاقت ہے اور دنیا کی بہترین آرمی ہمارے پاس ہے۔یہ سب کچھ چیف نے کہا۔۔نوجوان نسل سے۔ 2007ء سے اب تک جنرل کیانی سے جنرل راحیل تک اور جنرل راحیل سے موجودہ چیف تک،ایک کے بعد ایک ڈاکٹرائن پاکستان کو میسر ہو رہی ہے۔جس کو بھی چاہا شدت سے چاہا ہے فراز۔۔سلسلہ ٹوٹا نہیں درد کی زنجیروں کا۔پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟لیڈر شپ؟ کرپشن؟ Elite Capture؟ خود سے بددیانتی؟نیت یا اہلیت؟ہر بار ہر کوئی ڈاکٹرائن مسائل کا حل کیوں نہیں ہوتی؟اب2024ء میں ایک نیا انتخاب سامنے ہے۔دُعا بھی ہے اور خواہش بھی کہ شاید اس بار ہماری توقع غلط ہو اور ہم سیاسی خلفشار اور معاشی حبس سے باہر آ جائیں۔شاید کوئی بہار240ملین کی بھی منتظر ہو۔1985ء میں جنرل ضیاء نے غیر جماعتی انتخاب کروائے تھے۔کیوں؟لکھنے کی ضرورت نہیں۔چیف، یو اے ای اور سعودیہ کے ساتھ تعاون سے پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چین اور امریکہ کی کولڈ وار سے پاکستان کو باہر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مگر میرے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کے اندر ہے۔ہمارا چیلنج Elite Captureہے۔ امارت اور غربت میں آسمان اور زمین کا فاصلہ ہے۔اسCapture سے آج تک ہمیں کوئی جنرل یا سویلین نجات نہیں دلا سکا۔باقی رہے۔۔ جمہوریت، الیکشن، پارلیمنٹ۔۔ووٹ،ووٹ کی عزت، حرمت، آبرو، یہ سب تو ہے مگر پھر بھی۔خود مختارعدالتیں بھی ہیں۔۔۔آزاد میڈیا بھی۔نام نہاد انقلابی سوشل میڈیا بھی۔دانشوروں کی لمبی قطار بھی۔ہر طرف بھاشن بھی،لیکچرز بھی،مشورے بھی،راہنمائیاں بھی مگر؟ اقلیت ۔۔اکثریت کی حاکم ہے مگر وسائل سے کچھ تو عام آدمی کے لیے بھی ۔ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں۔۔۔جی جائو تو کیا۔۔مرجائو تو کیا۔ ٭٭٭٭٭