بجلی کے بلوں کے خلاف عوام کا غصہ آسمانوں کو چْھو رہا ہے۔ نگران وزیرِ اعظم نے ہنگامی اجلاس تو بلا لیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ مختلف شہروں میں بِل ادا کرنے کے لیے لوگ اپنی موٹر سائیکلیں، موبائل اور زیورات تک بیچ رہے ہیں۔ خواتین اور بچے احتجاج میں شریک ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقوں کی مساجد میں اعلان ہوئے کہ احتجاجاً بجلی کے بِل جمع نہ کروائے جائیں۔ بجلی کے بلوں نے شہریوں کے چودہ طبق روشن کر دیے۔‘‘ یہ ساری خبریں ممتاز اپنے ارد گرد بیٹھے سب بزرگوں کو مختلف اخبارات میں سے پڑھ کر سنا رہا تھا۔ یہ سب لوگ ایک ایسے محلے میں رہتے ہیں جہاں آس پڑوس والے سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ ’’اس وقت عوام اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ اگر ریاست نے جس کے ہاتھوں سے کھیل دراصل نکل چکا ہے عوام کو سنبھالا نہ دیا تو اس سے اگلا مرحلہ خانہ جنگی کا ہو سکتا ہے۔ مختلف کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔‘‘ عباس جو ایک مقامی کالج کا پروفیسر ہے سالوں سے کہتا چلا آرہا تھا کہ بجلی کے بلوں میں اس طرح کے ٹیکس لگائے گئے ہیں کہ کوئی انہیں پڑھ بھی نہیں سکتا کہ کس کس چیز کے ٹیکس ہم سے لیے جا رہے ہیں؟ وہ کہا جاتا ہے ناں کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ عوام مہنگائی کے ہمالہ تلے دب گئے ہیں۔ اب وہ اپنے پھاوڑے اور بیلچے لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اپنے اپنے حصّے کا پہاڑ کاٹنے کے لیے۔‘‘ امتیاز کہنے لگا: مگر ٹی وی پر تو کوئی ایسی خبر دکھائی نہیں دیتی۔ وہ کیوں دکھائیں گے؟ اس لیے کہ مین سٹریم میڈیا کوئی ایسی خبر نہیں دے گا۔ سوشل میڈیا ہی اب پسماندہ لوگوں کی آواز ہے۔ ’’مجھے تو خوف آ رہا ہے جس طرح لبنان، عراق اور شام میں جنگ اور تباہی وہاں کے لوگوں کے لیے عذاب ناک بنا دی گئی تھی۔ کیا اب پاکستان میں بھی یہی صورتِ حال پیدا ہونے جا رہی ہے۔‘‘ صفدر کہنے لگا: خدا نہ کرے ایسے حالات پیدا ہوں۔ اس سے پہلے ہمیں آگے بڑھ کر اپنے ملک کو سنبھالنا ہوگا۔ ہمارے حکمران تو خود بگاڑ پیدا کر کے باہر بھاگ جاتے ہیں۔ مہنگائی کا سانپ ہماری مْنڈیروں سے اْتر کر ہمارے آنگنوں میں آ چکا ہے۔ مگر ہمیں بِین بجانی بھی نہیں آتی۔ برسوں ہم پیڑوں پر بیٹھنے والی فاختاؤں اور روشن دن کا انتظارکرتے رہے۔‘‘ موجودہ نگران حکومت بتا نہیں رہی۔ دیکھ لینا تیل کی قیمتیں بھی مزید بڑھیں گی۔ کوئی پاکستانی کھانا تک نہیں کھا سکے گا۔ افسوس! کہ آج تک ہم 25 کروڑ کے ملک سے کوئی عمدہ وزیرِ اعظم منتخب نہیں کر سکے۔‘‘ ساجد خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا: ’’نہ تو ہمارا عدالتی نظام اچھا ہے اور نہ ہی جیل خانوں کی اصلاحات مؤثر ہیں۔ کب سے وہ قاسم کے ابّا کہہ رہے تھے کہ ملک سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔ اسے دیوانے کی بڑ سمجھا گیا۔ دو سو مقدمے اس پر بنا دیے گئے جو دنیا بھر کی انوکھی مثال ہے۔توشہ خانہ کیس میں قاسم کے ابّا کی سزا معطل ہوگئی مگر رہائی نہ ملی اور سائفر کیس میں گرفتا کر لیا گیا۔‘‘ اب دیکھو ناں ہر محکمہ کرپشن کا شکار ہے۔ بجلی ہی کو دیکھ لو لگتا ہے ہمارے ادارے سفید پوش جرائم کی باقاعدہ تربیت لیتے ہیں ۔کیوں کہ اس طرح آمدن بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ جب کوئی سیاست دان رشوت لے اور بدعنوانی جیسے جرائم میں گرفتار ہو تو پولیس اور دانش ور اسے سر، میرے بھائی یا میرے لیے قابلِ احترام کہہ کر بلاتے ہیں۔ آخر ایسے جڑوں کو کاٹنے والے قابلِ عزت کیونکر ہو سکتے ہیں؟ شاید سفید پوش افسران ماتحتوں کو چالبازیوں کے لیکچر بھی دیتے ہوں گے۔‘‘ کامران نے کہا: کیا کریں ہمیں یہی مْنہ ملاحظے لے ڈوبے ہیں۔ یار عوام کو یہ احتجا ج بہت پہلے کرنا چاہیئے تھا۔ سمجھ سے باہر ہے بجلی کے بِل پر یہ ایڈوانس انکم ٹیکس کیا ہے؟ اس وقت 45 روپے فی یْونٹ لیا جا رہا ہے۔ ہمارے رجیم چینج والے وزیرِ اعظم نے تو عوام کی سہولت کے لیے اپنے کپڑے بیچنے تھے اور عوام کو ریلیف دینا تھا۔ مگر وہ تو لال رنگ کے مہنگے ترین جْوتے خرید کر لندن میں گْھوم رہے ہیں ۔ظاہر ہے اس عمر میں پیر میں تکلیف ہوگی۔‘‘ اتحادی جماعتیں جو ایک دوسرے کی سہولت کار بنی ہوئی تھیں اب خود کو بچانے کے لیے عوام کے حق میں بیان دے رہی ہیں۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے نمائندے ذرا باہر تو نکلیں پھر دیکھیں عوام ان کے ساتھ کرتے کیا ہیں؟‘‘ ضیا کہنے لگا: ملک سے لاکھوں لوگ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ باقی لوگ جانے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔‘‘ آخر غریب ممالک کیوں ہمیشہ IMF سے قرضہ لیتے ہیں؟ IMF بھی ایسے ملکوں کو قرض دینے کے لیے تیار ہی رہتا ہے۔ قرضہ لینے والے ملک کے پاس آپشن نہیں ہوتی کہ وہ کب اور کس ملک سے کتنی تجارت کرے گا۔ یہ اختیار بھی IMF کے پاس ہی ہوتا ہے۔‘‘ امتیاز نے کہا: اوپر سے وزارتِ خزانہ کہہ رہی ہے کہ IMF سے معاہدے کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ ہائے اللہ! اب کیا ہو گا؟ بجلی کی قیمتوں سے صنعت، تجارت، برآمدات اور کاروبار تباہ ہو جائے گا۔‘‘ غفور کہنے لگا: ’’آخر ہم لوگ بجلی بچانے کے لیے کیوں نہیں بازار اور مارکیٹیں صبح آٹھ بجے کھولتے اور شام مغرب سے پہلے بند کریں تاکہ صنعتوں کے لیے بجلی بچائی جا سکے۔ یہی طریقہ مغرب والوں نے اپنایا ہے اور بنگلہ دیش نے بھی۔ دیکھ لو وہاں ترقی ہو رہی ہے۔‘‘ لیکن اب اصل مدعا کیسے حل ہوگا۔ سْنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے جولائی اور اگست کے بجلی کے بل قسطوں میں جمع کروانے کی منظوری دے دی ہے۔ چلو اچھا ہوا جو بھی بیچیں وہ تو آپ ہی کو بیچنا ہے۔ وزیر لوگ تو کچھ دیں گے نہیں۔ اْن کی یہی مہربانی بہت ہے کہ قسطیں کر دیں۔ اب آپ خود کو قسط وار بیچیں اور بجلی کے بِل جمع کروائیں۔ ٭٭٭٭٭