زندگی تو انقلاب کے نعرے لگاتے اور تبدیلی کا خواب دیکھتے گزر گئی۔انقلاب آ یا نہ تبدیلی!! ہر دور میں نیا لیڈر سامنے آتا رہا اور ہر نیا آنے والا سہانے سپنے دکھا کرخود کسی نئی دنیا میںکھوجاتا ہے۔کچھ نہیں بدلا،نہ ہم ،نہ لیڈر نہ خواب۔ انقلاب تو خواب تھا ہی نہیں۔یہ خواب کیسے بن گیا؟یہ ایک حقیقت تھی جسے دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔اس دنیا میں پائیدار انقلاب ایک ہی تھا،رسول اللہﷺکا انقلاب۔محض 23 برس میں اس انقلاب نے معلوم دنیا کا نقشہ بدل دیا۔آپﷺ نے صفا سے جب اہل قریش کو پکارا تھا اور وہ اپنے مصنوعی خدائوں کا تکبر خاک میں ملتا دیکھ نہ سکے۔مکے کا سب سے سچا،کھرا،امانت دار،سب سے خوب صورت، خوب سیرت اور معلوم دنیا کا کامل انسانﷺ ان کے لیے کبھی اجنبی نہ تھا۔بس اہل قریش کو ایک ہی بات ناگوار تھی کی ان کا جعلی پندار،کھوکھلی بادشاہت اسلام کے آفاقی پیغام کی ضد میں آگئی تھی۔ایک ہمہ گیر انقلاب قربانی اور آزمائش سے آغاز کرتا ہے اورفتح مکہ جیسے پرامن دن کا ظہور لاتا ہے۔ کوہ صفا سے یوم مبین تک شعب ابی طالب،تشدد،بائیکاٹ،جبر،ہجرت،بدر،خندق،اور ہزار ہا مشکلات ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔آج انقلاب کی باتیں کتنی عجیب لگتی ہیں،ہم میں سے کون کون اس راہ سے گزرا،کوئی بھی نہیں۔آ ج انسان حیرت میں ہے کہ اتنی مختصر مدت میں اتنا بڑا انقلاب کیسے آگیا؟یہ وہ تبدیلی یھی جو انسان کے د ل اور دماغ میں آئی اور دنیا ادھر سے ادھر ہو گئی یہ انقلاب پلٹ کر نہیں گیا۔محض نعروں سے ملنے والے ووٹوں کو انقلاب یا تبدیلی نہیں کہتے۔دل ودماغ پر جو قابض نہ ہو تبدیلی کی اور انقلاب کیا؟۔انقلاب اور تبدیلی کے داعی جانتے ہیں کہ محمدﷺ کا انقلاب خونی انقلاب نہیں تھا اور جو انقلاب خون بہاتا ہے وہ انقلاب نہیں ہوتا۔سید مودودی ؒنے لکھا ہے۔ ’’انقلاب کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے توآپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ انقلاب غیر خونیں انقلاب کہے جانے کا مستحق ہے۔پھر اس انقلاب میں فقط ملک کا طریقِ انتظام ہی تبدیل نہیں ہوا، بلکہ ذہن بدل گئے۔نگاہ کا زاویہ بدل گیا۔سوچنے کا طریقہ بدل گیا،زندگی کا طرز بدل گیا،اخلاق کی دنیا بدل گئی،عادات اور خصائل بدل گئے،غرض ایک پوری قوم کی کایا پلٹ کر رہ گئی۔ ان میں وہ ایلچی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے سپہ سالارانِ ایران کے بھرے دربار میں اسلام کے اصولِ مساواتِ انسانی کا ایسا مظاہرہ کیا اور ایران کے طبقاتی امتیازات پر ایسی بر محل تنقید کی کہ خدا جانے کتنے ایرانی سپاہیوں کے دلوں میں اس مذہب ِانسانیت کی عزت و وقعت کا بیج اس وقت پڑگیا ۔ ان میں وہ شہری پیدا ہوئے جن کے اندر اخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا زبردست تھا کہ جن جرائم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی صورت میں دی جاتی تھی، ان کا اقرار خود آکر کرتے تھے اور تقاضا کرتے تھے کہ سزا دے کر انھیں گناہ سے پاک کر دیا جائے ۔ حضورﷺ کو اپنے کام کے حوصلہ شکن ابتدائی دور میں پورا شعور تھا کہ کیا کرنے چلے ہیں۔ دعوت کا کام شروع کرنے کے جلد ہی بعد خاندانِ بنوہاشم کو کھانے پر جمع کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: جو پیغام میں تم تک لایا ہوں اسے اگر تم قبول کرلو تو اس میں تمھاری دنیا کی بہتری بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی‘‘۔ پھر ابتدائی دورِ کش مکش میں مخالفین سے آپ نے فرمایا کہ ’’بس یہ ایک کلمہ ہے‘‘، اسے اگر قبول کرلو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرنگین کرلو گے اور سارا عجم تمھارے پیچھے چلے گا‘‘۔ پھر ایک موقع پر رسولِ بشیرونذیر کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، خباب ابن الارت نے جو قریش کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، عرض کیا: حضورﷺ، ہمارے لیے خدا کی مدد کی دعا نہیں فرمائیں گے؟ حضورﷺ نے فرمایا’’ تم سے پہلے ایسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ گڑھے کھود کر ان کے دھڑ مٹی میں داب دیے جاتے اور پھر ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا جاتا۔ تیز لوہے کی بڑی بڑی کنگھیوں سے ان کے گوشت اور کھالوں کی کترنیں ہڈیوں سے نوچ لی جاتیں لیکن یہ چیزیں ان کو دین و ایمان سے نہ پھیر سکیں‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اس کام کو اللہ تعالیٰ ایسی تکمیلِ منزل تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا، اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف لاحق نہیں ہوگا‘‘۔ مدنی دور میں عدی بن حاتم سے فرمایا کہ ’’بخدا وہ وقت قریب آرہا ہے جب تم سنو گے کہ اکیلی عورت قادسیہ سے چلے گی اور مکہ کا حج کرے گی اور اسے کسی کا خوف ڈر نہ ہوگا‘‘۔ آپﷺ کے سامنے اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور امن وسلامتی کے ایک ایسے نظام کا نقشہ تھا جس میں کمزور اور تنہا فرد بھی ہر ضرر اور ظلم سے محفوظ ہوگا۔ آج انقلاب اور تبدیلی کے دعویداروں کے لیے بھی یہی راستہ ہے اس کے علاوہ کوئی بھی ’’تبدیلی‘‘ انقلاب نہیں کہلا سکتی۔کوئی سمجھتا ہے کہ وہ پہلے تبدیلی لائے گا اور بعد میں انسان بدلے گا تو محض خام خیالی اوراحمقوں کی جنت میں رہتاہے۔ماضی کے چوروں،لٹیروں اور آزمائے ہوئے سیاست کاروں کو نئی جگہ دینے سے دل ودماغ بدل نہیں جاتے بلکہ ان کو لوٹ مار اور دھوکہ دہی کا ایک نیا پلیٹ فارم مہیاکرنے کے مترادف ہے۔ یہ زندگی تو انقلاب کے نعرے لگاتے اور تبدیلی کا خواب دیکھتے گزر گئی۔وہ آ بھی کیسے سکتا ہے نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی۔ ٭٭٭٭