2019ء کی بات ہے۔ شریعہ اکیڈمی میں سیشن ججوں، پرسیکیوٹرز اور لا آفیسرز کی چار ماہ کی ٹریننگ کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک دن کورس کے شرکا کو پارلیمان کا دورہ بھی کروایا گیا۔ اس دن قومی اسمبلی میں قانون سازی کا کام ہورہا تھا، لیکن صورت حال کچھ یوں تھی کہ گنتی کے چند وزرا اگلی صفوں میں موجود تھے اور کئی ارکان ِ اسمبلی ان سے مل کر ان سے کچھ کاغذات پر دستخط کروارہے تھے۔ اسی دوران میں ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا۔ اپوزیشن کے معدودے چند ارکان ہلا گلا کررہے تھے۔ اسی افراتفری میں سپیکر نے خانہ پری کا کام کیا اور اعلان کردیا کہ مسودہ منظور ہوگیا ہے۔ اس کے بعد تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا، تو ایک حکومتی ایم این اے نے بڑا معصومانہ سوال کیا کہ قانون تو بن گیا ہے لیکن ہمیں بتائیں تو سہی کہ جو قانون ابھی ہم نے بنایا ہے اس میں ہے کیا؟ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ آخری دفعہ تھا۔ حالیہ دنوں قومی اسمبلی نے ایک ہی روز میں 25 یونیورسٹیوں کے قیام کے متعلق قوانین کے مسودے منظور کیے جس میںسینیٹ نے 6 مزید یونیورسٹیوں کیلیے قوانین کا اضافہ کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کئی مسودات حکومتی ارکان نے پیش کیے لیکن انہیں حکومتی بل کے بجائے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا گیا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ قانون کے وزیرِ مملکت جناب شہادت اعوان نے ان بہت سارے مسودات کو روکنے کی کوشش کی لیکن روکنے کیلیے جو دلیل وہ دے رہے تھے وہ ناقابلِ فہم تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے این او سی لیا جائے، اس کے بعد ہی نئی یونیورسٹی کے قیام کا مسودہ ایوان میں پیش کیا جائے۔ اس پر ایک بل کے محرک جناب پیر صابر شاہ، جن کا تعلق حکمران جماعت نون لیگ سے ہے، نے بجا طور پر اعتراض کیا کہ یہ تو پارلیمان کے ایوانِ بالا کے تقدس کی پامالی ہوگی اگر اس میں قانون سازی کا مسودہ پیش کرنے کیلیے بھی پہلے کسی اور فورم سے اجازت لینی پڑے۔ شہادت اعوان صاحب اس کے جواب میں یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار کے زوال کا نوحہ پیش کررہے تھے اور ساتھ ہی فرما رہے تھے کہ ایچ ای سی کو اس معاملے میں ریگولیٹر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آخری بات خلافِ حقیقت ہے کیونکہ ایچ ای سی کو ریگولیٹر کی حیثیت قانون نے نہیں دی ہے۔ایچ ای سی آرڈی نینس 2002ء میں کہیں بھی ریگولیٹر کا لفظ ہی استعمال نہیں ہوا ہے، نہ ہی اس آرڈی نینس کی دفعہ 10 میں، جہاں ایچ ای سی کے کام اور اختیار کی بات کی گئی ہے، کہیں کوئی ایسی بات کی گئی ہے جس سے ایچ ای سی اپنے لیے ریگولیٹر کی حیثیت منواسکے۔ اصل میں کرنے کا سوال یہ تھا کہ پارلیمان کے آخری دنوں میں اچانک ہی ان معزز ارکانِ پارلیمان کو اتنی ڈھیر ساری یونیورسٹیاں بنانے سے دلچسپی کیوں ہوگئی؟ "گل وچوں ہور تھی "جو شہادت اعوان صاحب جانتے تھے لیکن کہہ نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ بیشتر مسودات کو قائمہ کمیٹی کی طرف بھیجنے کی اجازت دے دی گئی، جبکہ بعض مسودات کو اس بنا پر کمیٹی کی طرف بھیجے بغیر فوری طور پر منظور کیا گیا کہ پہلے ہی ان پر قومی اسمبلی کی کمیٹی میں تفصیلی بحثیں ہوچکی ہیں۔ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی اپنی جگہ ہے اور سینیٹ کی کمیٹی کا اپنا مقام ہے، اور اگر ایک ہی ایوان اور ایک ہی کمیٹی نے سب کچھ کرنا ہے، تو پھر دوسرے ایوان اور اس کی کمیٹیوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ویسے ایک آدھ یونیورسٹی ایسی تھی کہ ان پر شہادت اعوان صاحب کو بھی چوں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، جیسے نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز۔ وجہ ظاہر ہے۔ عجلت میں کی گئی قانون سازی میں قوم کے ساتھ کس طرح کا بھونڈا مذاق کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ اس مثال سے لگائیے کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے ضمن میں "ٹرانس جینڈرز" کے حق میں بھی ایک ترمیم شامل کی گئی اور جب سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس پر اعتراض کیا تو وفاقی وزیرِ قانون جناب اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمان کے فلور پر غلط بیانی کرتے ہوئے قرار دیا کہ ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل میں بنایا گیا تھا، حالانکہ جس مقدمے (ڈاکٹر اسلم خاکی کیس) کا ذکر ہورہا ہے وہ "خواجہ سراؤں" کا مقدمہ تھا، یعنی ان لوگوں کا جو جسمانی طور پر مرد ہوں لیکن جنہیں نامرد بنایا گیا ہو۔ ٹرانس جینڈر تو وہ ہیں جو اپنے "ذاتی احساسِ صنف" کی بنیاد پر اپنے لیے اپنی مرضی کی "صنف" چننا چاہتے ہیں، خواہ وہ ان کی جسمانی "جنس" سے مختلف ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آئین کی رو سے جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے، نہ ہی ہمارا آئین دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کو مانتا ہے۔مذکورہ مقدمے میں سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم نامے میں کہیں بھی ٹرانس جینڈر کی ترکیب سرے سے استعمال ہی نہیں ہوئی ہے، لیکن وزیرِ قانون نے کہہ دیا، ارکانِ پارلیمان نے مان لیا اور سپیکر جناب راجا پرویز اشرف نے فوراً ہی خانہ پری کرکے ترمیم کی منظوری کروالی! اس سے بھی واضح مثال "پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام" کے قانون کا مسودہ ہے جسے چیئرمین سینیٹ کے اختیارات کی آڑ لے کر اس طرح سینیٹ میں پیش کیا گیا کہ اسے پیش کرنے سے قبل حکومتی اتحادی ارکان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، بلکہ نون لیگ کے بعض سینیٹرز نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ اگر سینیٹر مشتاق نے اس بات کو سوشل میڈیا پر نہ اٹھایا ہوتا اور اجلاس سے قبل کے مختصر وقت میں وہ بھرپور لابنگ نہ کرتے، تو یہ مسودہ بھی اسی طرح چلتے چلتے منظور ہوچکا ہوتا اور بعد میں جب اس قانون کے شکنجے میں یہی ارکانِ پارلیمان کسے جاتے، تب یہ شور مچاتے کہ یہ "ڈریکونین قانون" ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پے درپے اجلاسوں کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کیلیے سال میں کم از کم 130 دن اجلاس ضروری ہے، لیکن آئین میں یہ نہیں لکھا کہ دن میں کتنے گھنٹوں کیلیے اجلاس ہونا چاہیے، بعض اوقات 130 دن پورے کرنے کیلیے یہ کیا جاتا ہے کہ ایک دن ایک گھنٹہ اجلاس کرلیا، پھر دو دن کا التوا کرکے چوتھے دن پھر ایک گھنٹے کا اجلاس کرلیا اور ان کو چار دن کا اجلاس قرار دے دیا! اس کا فائدہ دن پورے ہونے کے علاوہ "سیشن الاونس" کی صورت میں بھی نکلتا ہے جو ایک اچھی خاصی معقول رقم ہوتی ہے اور پارلیمان کے ارکان کے علاوہ پارلیمان کے تمام ملازمین کو بھی ملتی ہے ،جب بھی پارلیمان کا اجلاس ہورہا ہو۔چنانچہ جتنے دن اجلاس جاری رہتا ہے، سیشن الاونس کا کھاتہ بھی چل رہا ہوتا ہے اور چند گھنٹوں کے اجلاس کو چار دن کا دکھا کر چار دن سیشن الاونس ارکانِ پارلیمان کو بھی مل جاتا ہے اور پارلیمان کے ملازمین کے بھی وارے نیارے ہوتے ہیں۔