چوہدری ظہور الٰہی مرحوم1981ء میں مرتضیٰ بھٹو کی تنظیم الذوالفقارکی انتقامی فائرنگ کی زد میںآئے اور جاں سے گزر گئے۔نشانے پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف مولوی مشتاق تھے مگر زد میں چوہدری صاحب آ گئے۔اس سے پہلے ضیا ء الحق اور چوہدری ظہور الٰہی میں گاڑھی چھنتی تھی کہ دونوں کا مشترک دشمن بھٹو تھاجسے1979ء میں ضیاء الحق بذریعہ عدالت پھانسی گھاٹ بھیج چکے تھے۔جب ظہور الٰہی نہ رہے تو جنرل صاحب نے اپنا سیاسی دستِ شفقت چوہدر ی شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی پر رکھ دیا۔چوہدری شجاعت مرکز میں سیاست کرتے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کی انتخابی سیاست کا جوڑ توڑ۔1985ء میں پنجاب کے چیف منسٹر میاں نواز شریف بنے تو چوہدری پرویزالٰہی وزیرِ بلدیات تھے ۔لوکل سیاست کے جوڑ توڑ میں اُن کی مہارت حیرت انگیز تھی۔1988ء میں جہاز میں آموں کی پیٹیاں پھٹیں اور ضیاء الحق بھی جاں بحق ہو گئے ۔نواز شریف نے مسلم لیگ کی صدارت سے محمد خان جونیجو کو ہٹایا اور مسلم لیگ نون بن گئی۔اس موقع پر چوہدریز ہمیشہ شریفس کے ہمنوا رہے۔تمام سیاسی فیصلے بڑے اور چھوٹے چوہدری مل کر کرتے اور اس میں اکثر چوہدری پرویز الٰہی کے والد منظور الٰہی کی مشاورت بھی شامل ہوتی۔وقت گزرا تو چوہدری وجاہت بھی اس مشاورت کا حصہ بن گئے۔جب بے نظیر اور نواز شریف میں سیاسی جنگ ہوئی تو ساری تپش پرویز الٰہی نے برداشت کی مگر وقت آنے پر وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف بن گئے۔چھوٹے چوہدری صاحب کو پنجاب کی سپیکر شپ پر اکتفا کرنا پڑا اور پھر 1999ء میں مشرف نے نواز شریف کو ہٹایا اور وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے۔مشر ف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز اُن کے ایف سی کالج کے پُرانے دوست تھے۔طارق عزیز کا تعلق ایف سی کالج سے ہی چوہدریز سے بھی تھا۔نواز شریف ایک ڈیل کے ذریعے ملک سے باہر چلے گئے اور چوہدریزجو شریفس سے شاکی تھے مشرف کے ساتھ ہو لیے۔ جب شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ منظر سے ہٹی تو سیاسی خلا کو پُر کرنے کیلئے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی گئی مسلم لیگ(ق)۔اس جماعت کو ویسی ہی سپورٹ حاصل تھی جیسی کبھی شریفس کو یا2018ء میں عمران کو حاصل تھی۔یاد رہے کہ آصف زرداری اس وقت لانڈھی جیل میں تھے۔2002ء میں ملک بھر میںا لیکشن ہوتے ہیں اور پنجاب کی پگ چوہدری پرویز الٰہی کے سر پر رکھ دی جاتی ہے۔مشرف ملک کا وزیرِ اعظم میر ظفر اللہ جمالی فرام بلوچستان کو بنا دیتے ہیں۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ جمالی صاحب کو وزیرِ اعظم ہائوس سے بے دخلی کا پروانہ مل جاتا ہے۔مگر اُن کی جگہ کون آئے گا۔۔۔اس پر گوٹ پھس جاتی ہے۔95فیصد طے پا جاتا ہے کہ اگلے وزیرِ اعظم ہمایوں اختر ہوں گے۔پنڈت پیش گوئیاں بھی کر دیتے ہیں۔چوہدریز سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ہمایو ںکو روکنے کیلئے۔۔شوکت عزیز کیلئے لابنگ کی جاتی ہے اور شارٹ کٹ عزیز وزیرِ اعظم بن جاتا ہے۔چوہدریز نے ہمایوں کا راستہ کیوں روکا۔۔یہ کہانی پھر سہی۔ بڑے چوہدری صاحب کچھ عرصہ درمیانی بندوبست کیلئے وزیرِ اعظم بھی رہے۔مگر چھوٹے چوہدری صاحب 2002ء سے2008ء تک پنجاب کے بے تاج بادشاہ رہے۔اُن کے پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر تھے اور چیف سیکرٹری سلمان صدیق تھے۔چوہدری صاحب کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ باورچی نے ڈش ایسی بنائی ہے کہ الیکشن 2008ء کے بعد بھی آپ ہی تخت لاہور کے مالک ہوں گے۔جنرل مشرف کا بھی یہی خیال تھا مگر طاقت کے لیورز جنرل کیانی کے پاس شفٹ ہو چکے تھے۔۔اور پھر بساط پر مہرے بدل گئے۔جس دن شہباز شریف وزیرِ اعلی بنے اُس سے ایک دن بعدچھوٹے چوہدری صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ پوچھا"تہاڈا کی خیال اے۔۔۔شہباز دی حکومت کیسی ریئے گی؟"چوہدری صاحب کا جواب Folk Wisdomکا نمونہ تھا۔"میں کدی غلطی کرناں ساں تے مینوں جی ایم سکندر تے سلمان صدیق سمجھا لیندے سن۔۔دونوں ٹھنڈے افسر نیں۔تے ہُن شہباز وی گرم اے تے اوہدا چیف سیکرٹری وی"اور مسکرا دیے۔وہی ہوا۔جاوید محمود ایک ہائیپر اور مغرور افسر تھا،ایک حادثہ ہوا اور اُسے چیف سیکرٹری آفس خالی کرنا پڑا۔جب2008ء شہباز چیف منسٹر بنے تو ہر پنڈت نے چوہدری صاحب اور میاں صاحب کا موازنہ کیا۔اُنہی دنوں میں نے ایک سینئر بیوروکریٹ سے چوہدری صاحب کی کامیابی کے سبب پر بات کی تو وہ کہنے لگے"ٹیم کا انتخاب اور ٹھنڈا ٹیمپرا منٹ"۔جس طرح نواز شریف کو گورننس میں مدد کیلئے انور زاہد اور زید کے شیر دِل جیسے سٹار بیوروکریٹس کا بڑا اہم کردار تھا بالکل ویسے ہی چوہدری پرویز الٰہی کی بیوروکریٹک ٹیم خاصی سمجھدار تھی۔ اپریل2022ء میں عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد ہوا۔آصف زرداری اور شہباز شریف نے نواز شریف کو قائل کر لیا کہ پنجاب کا چیف منسٹر چھوٹے چوہدری کو بنا دیا جائے۔اس معاملے کو چوہدری شجاعت ہینڈل کر رہے تھے۔نون کے ٹاپ سٹارز اکھٹے ہو کر چوہدریوں کے گھر آ گئے۔عہدو پیمان بھی ہو گئے اور مٹھائی بھی بٹ گئی۔مگر اگلے دن بڑے چوہدری کی مرضی کے خلاف چوہدری پرویز الٰہی اپنے بیٹے مونس کے ساتھ جاتی عمرہ کی بجائے بنی گالہ پہنچ گئے۔یہ خبر پنڈتوں کیلئے کسی بم شیل سے کم نہ تھی۔شنید ہے کہ اس میں لاہور کے ایک میڈیا پنڈت ، ایک خاکی پنڈت کے قریبی عزیز اور مونس کے مشیروں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔بڑے اور چھوٹے چوہدری میں دراڑ آ گئی۔سیاسی راستے جُدا ہو گئے۔مونس کہنے لگا کہ نون میں مریم اور حمزہ کی موجودگی میں میرا کوئی سکوپ نہیں۔چوہدری صاحب کے پچھلے دور میں جی ایم سکندر اور سلمان صدیق تھے۔اب والے دور میں محمد خان بھٹی اور مونس الٰہی تھے۔چیف سیکرٹری توکہہ چکے تھے کہ میں کام نہیں کر سکتاکہ اصلی وزیرِ اعلیٰ مونس تھا۔اب بھٹی صاحب اندر ہیں اور چوہدری پرویزالٰہی بھی اور مونس اِن سپین۔سوال یہ ہے کہ چوہدریز کے مابین دراڑ سے انہیں فائدہ ہوا یا نقصان؟بڑے چوہدری صاحب گئے تھے۔۔چھوٹے چوہدری کو منانے کہ چھوٹا بھائی دل کا مریض بھی ہے اور شوگر کا اسیر بھی۔مگر چوہدری پرویز الٰہی نہیں مان رہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ اگلے بندوبست کی چنائیاں اور پلستر کر رہی ہے۔کاش دونوں اکھٹے ہوتے۔