گزشتہ دنوں پشاور میں پو لیس لائنز کی مسجد میں جو خودکش دھماکہ ہوا، اس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 102سے زائد نمازی جاں بحق اور00 زخمی ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی یہ سب سے بڑی کاروائی ہے۔انسانی جانوں کا اور بالخصوص پولیس اہلکاروں کی زندگی کا یہ زیاں انتہائی قابل مذمت اور باعث تشویش ہے۔ ریاستی ادارے گزشتہ کئی سالوں سے ان عناصر کی سرکوبی کے لئے مسلسل کوشاں رہے ہیں انہیں اس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی اور اس دوران حالات قابو میں بھی آگئے تھے مگر اب دہشت گردی کی اس نئی لہر نے حالات کی سنگینی کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ دہشت گرد ایک بار پھر منظم اور تازہ دم ہو کر ریاست کے امن کے درپے ہو رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا ان کے نشانے پر ہیں ۔بلوچستان میں سیاسی اور سماجی بے چینی کی تو ایک طویل تاریخ ہے، کتنی ہی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہو سکے ۔بعینہ خیبر پختونخوا میں بھی سابقہ فاٹا کے صوبہ میں انضمام کے بعد سے ان علاقوں میں سیاسی کشیدگی موجود رہی ہے ۔ اس کشیدگی کے اسباب تلاش کئے جانے بہت ضروی ہیں ا رباب اختیار کو یا تو ان مسائل کا درست ادراک نہیں ہے یا ایسا لگتا ہے کہ وہ انہیں حل کرنے سے عاجز ہیں۔ ہر حکومت نے سرداروں اور خوانین پر ہی توجہ دی وہ اقتدار میں بھی شریک ہوتے رہے مگر عوام کے دکھوں کو کم نہیں کیا جاسکا۔مشکلات اور عوامی سطح پر بے چینی کا یہ تسلسل جب یاسیت میں ڈھل جائے تو پھر رد عمل میں تشدد اور تخریب کا آغاز ہوتا ہے ۔ تدبر اور دوراندیشی کی حامل سیاسی قیادتیں حالات کا اس نہج پر جانے سے پہلے ہی تدارک شروع کر دیتی ہیں ۔ مگر شائد پاکستان میں اس طرح کی سیاسی قیادتیں اب عنقاء ہو چکی ہیں ۔مسائل کے درست ادراک اور بروقت ان کے تدارک سے ہی انتظامی،عسکری اور سیاسی اداروں کی اہلیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی ،معاشی اور انتظامی حالت ان اداروں کی مطلوبہ اور موجودہ اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی کا یہ عذاب کسی طور پر ختم نہیں ہو پارہا۔داخلی اور خارجی پالیسیوں میں کہاں کمزوریاںرہیں ،کہاں اندازے لگانے میں غلطیاں ہوئیں اور کہاں توقعات غیر حقیقی طور پر قائم کرلی گئیں۔ ان حالات کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کا اعتراف نہ کر لیا جائے یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے جاری خطے کی پیچیدہ صورت حال میں ہماری ریاست کی پالیسیاں اور ترجیحات توقع کے مطابق نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔انہیں پھر سے تشکیل دیا جانا چاہیئے۔ ریاستی تعلقات اور ترجیحات کے تعین میں رومانویت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کے تعین میں زمینی حقائق ،ریاست کے مفادات اور سلامتی کا تحفظ بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔ افغانستان میں پیدا شدہ حالات کا سب زیادہ نقصان پاکستان کو ہی ہوا حالانکہ یہ پاکستان ہی تھا، جس نے لاکھوں افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دی ان کا ہر طرح سے خیال رکھا ،یہ پاکستان ہی تھا جس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا مگر اب کئی سالوں سے خود دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پالیسی سازوں کے لئے یہ لمحہء فکریہ ہے۔ بیرونی طور پر افغانستان اور ایران جب کہ اندرونی طور پر بلوچستان،خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان اور کشمیر سے متعلق پالیسیاں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تجدید نو کی متقاضی ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی ہے۔ پاکستان میں موجود افغانی باشندے اپنے علاقوں میں واپس چلے جائنگے اور ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کے مابین سیاسی ،سماجی اور تجارتی تعلقات معمول سے زیادہ خوشگوار ہو سکیں گے اور افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں موجود تحریک طالبان کو پاکستان کی آئینی حدود میںرہتے ہوئے انہیں امن وامان کے قیام کے لئے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائیگی مگر اب تک کی صورتحال اس ضمن میں امید افزا نہیں ۔ ہر دو حکومتوں کی سطح پر تمامتر یقین دہانیوں کے باوجود تعلقات اور معاملات میں سدھار کی جانب کوئی باعث اطمینان پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں اور وہ کون سی رکاوٹیں ہیں، جو اس عمل میں حائل ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان سب پہلوئوں پر سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ تمام ادارے اور سیاسی قیادت جائزہ لے اور ٹھوس عملی اقدامات کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کرے۔ یہ وقت سیاسی مفادات اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے۔اس سلسلے میں حکومت وقت اور عسکری اداروں کے لئے سیاسی مفاہمت اور یگانت کے لئے مشترکہ طور پرکوششیں کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ سیاسی استحکام اور ملکی سلامتی کا معاملہ ہے اس کے لئے کوششیں بھی اجتماعی طور پر ہی کرنا ہونگی۔پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو اس مرحلے پر سیاسی مفاہمت کے لئے فضا کو سازگار بنانا ہوگاجب تک داخلی سیاسی ماحول کو بہتر نہیں بنایا جاتا اور جب تک حکومت کے اپنے پائوں مضبوطی کے ساتھ زمین پر نہ جمے ہوئے ہوں دہشت گردی کے اس عفریت پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ ٭٭٭٭٭