سویڈن میں قرآن کے نسخے جلانے کے واقعے پر مختلف اطراف سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی کی توجہ ناجائز کام پر صبر و تحمل اور لغو سے اعراض والی آیات و احادیث پر ہے تو کوئی جہاد و قتال یا کم سے کم بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیتا ہے؛ جبکہ کسی نے اپنے ہاں کے بعض جذباتی لوگوں کو شرمندہ کرنا زیادہ ضروری سمجھا جو بعض اوقات غیرمسلموں کی مذہبی شخصیات یا شعائر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ اس ساری بحث میں سب سے اہم یہ سوال کہیں دب گیا ہے کہ کیا حقوقِ انسانی کے تصورات اور اصولوں کی رو سے اظہار رائے کی آزادی کے حق پر یہ قید لگائی جاسکتی ہے کہ اس حق کے ذریعے آپ کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین نہیں کریں گے؟ "توہینِ مذہب کے حق"کے لیے جو استدلال کیا جاتا ہے اسے سمجھنے کے لیے میں to Ridicule Right The، یعنی تضحیک کا حق، کے عنوان سے مشہور امریکی فلسفیِ قانون دان رونالڈ ڈوورکن کا مختصر مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا (نیو یارک ٹائمز 23 جون 2006ء )۔ ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہﷺکے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ظاہرہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا، لیکن پھر مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور خاکے شائع نہیں کیے۔ ڈوورکن پریس کے اس طرح خود پر قدغن لگانے کے نتیجے ہونے والے نقصانات میں معلومات، دلیل، ادب اور آرٹ کے ضیاع کے خدشات ذکر کرتا ہے اور پھر خصوصاً کہتا ہے کہ اس سے پر تشدد ردّعمل دکھانے والوں کو شہ ملتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس ردّعمل کی وجہ سے وہ ان چیزوں کی شاعت روک پائے ہیں۔ تاہم چونکہ ان کے شائع ہونے کے نتیجے میں قوی اندیشہ تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے اسی طرح شدید ردّعمل سامنے آتا اور مختلف ممالک میں مزید لوگوں کی جانیں ضائع ہوتیں اور مزید املاک کو نقصان پہنچتا، اس لیے عملی نتائج کے اعتبار سے یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد ڈوورکن کہتا ہے کہ عام قارئین کا یہ حق تھا کہ وہ خود دیکھ لیتے کہ کیا یہ کارٹون واقعی توہین آمیز تھے یا نہیں ؟مزاح کی سطح کیا تھی؟ان کا اثر کیا تھا؟تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ جو مرضی دیکھیں یا پڑھیں، خواہ اس کا نقصان کتنا ہی زیادہ ہو۔ گویا نقصان کے پہلو سے قدغن کے جواز کو وہ مجبوراً مانتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قدغن کب اور کس حد تک لگائی جاسکتی ہے؟ ڈوورکن خصوصاً یہ سوال کرتا ہے کہ کیا کسی "کثیر الثقافتی معاشرے" میں اظہار رائے کی آزادی کے حق پر قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ کیا کسی مذہب کے لیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ ڈوورکن پوری صراحت کے ساتھ دعویٰ کرتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطرمحدود کیا جاسکے(جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کے لیے گنجائش پیدا کی جائے)۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ "اظہار رائے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے۔" کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور کسی قانون یا پالیسی کے متعلق رائے کے اظہار سے روکا جائے تو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کے لیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ اس بنیاد پر وہ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔ ڈوورکن کمزور اور غیرمقبول اقلیتوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر وہ چاہتی ہیں کہ اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ وہ اظہار رائے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار رائے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گی۔ مسلمان بالعموم یورپی ممالک کی اس دوغلی پالیسی پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے ہاں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم گردانا گیا ہے۔ ڈوورکن کے نزدیک مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اظہار رائے پر ایک اور قدغن بھی لگالی جائے، بلکہ مناسب حل یہ ہے کہ مذکورہ قدغن بھی دور کردی جائے۔ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے تو پھر مسلمانوں کو ان لوگوں کی رائے بھی برداشت کرنی پڑے گی جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو ! آخر میں وہ خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے: "مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کے لیے یہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی مذہب ہر کسی کے لیے یہ قانون نہیں بناسکتا کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے۔" ڈوورکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش کا بنیادی مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی ہے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی ہے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دنیا اگر واقعی گلوبل ویلج بن چکی ہے تو یہ مسئلہ سوا ارب سے زائد مسلمانوں کا ہے اور سویڈن یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے معاملات پر دیگر ممالک کے مسلمانوں کو رد عمل دکھانے کا حق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرسکتے ہیں اور انھیں کیا کرنا چاہیے؟