پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے زیادہ اہمیت ان کے بیانیہ کو حاصل رہی ہے۔سیاست میں بیانیہ کی یہ روایت اگرچہ ہے توپرانی مگر اسے باقاعدہ سیاسی مہم اور جلسوں میں عوامی تحرک پیدا کرنے کے لئے انتہائی موئثر انداز میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے عمران خان نے استعمال کیا۔ وہ تبدیلی اور احتساب کا بیانیہ لے کر اقتدار تک پہنچے ۔کس حد تک وہ کامیاب رہے یہ فیصلہ اب تاریخ کے سپرد ہے۔نواز شریف اپنی سیاسی نااہلی اور وزارت عظمٰی سے برطرفی کے بعد’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیہ کے ساتھ عوامی رابطہ مہم پر نکلے مگر پھر جیل سے ہوتے ہوئے لندن جا پہنچے اور ان کا وو ٹ کو عزت دو کا بیانیہ کہیں راستے میں ہی کھو گیا۔عدالتی فیصلے کے مطابق وہ سزا یافتہ ہیں اور بیماری کی شدت کو جواز بناتے ہوئے انہیں علاج کی غرض سے ضمانت پر باہر جانے کی اجازت ملی تھی جسے انہوںنے از خود جلاوطنی میں بدل لیا ۔ اب تقریبا چار سال کے بعد وہ احتساب کے بیانیہ کے ساتھ وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے ایک بار پھر سیاسی حلقوں بالخصوص ان کی جماعت میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ ان کی تمام تر سیاست اس بات کی مظہر ہے کہ یہ بھاری پتھر ان سے نہ پہلے کبھی اٹھ پایا ہے اور نہ ہی اب ، اس عمر ضعیفی میں ، وہ اٹھا پائینگے۔ ان کی جماعت جو انہیں ایک سیاسی مسیحا کے طور پر پیش کر رہی ہے ۔اس بیانیہ میں عوام اور ریاست کی مشکلات کا نسخہ کہاں ہے۔ احتساب پر مبنی ان کا یہ بیانیہ حسب سابق ان کے پچھلے سیاسی بیانیوں کی طرح ایک مذاق بن کر رہ جائے گا ۔ ان کی جماعت کے دیگر قائدین اور کارکنان ان کے بیانیہ کی وضاحتیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔ شہباز شریف اور ان کی سیاسی سوچ کے حامی اس بیانیہ پر مضطرب ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے سیاسی راستے سے جو رکاوٹیں شہباز شریف نے اپنی سولہ ماہ کی وزارت عظمٰی کے دوران ہٹائی تھیں یا انہیں ہٹانے کی کوششیں کی تھیں اس بیانیہ سے وہ رائیگاں ہو رہی ہیں۔لہذا وہ فوری طور پر برادر بزرگ کے پاس لندن پہنچے اور انہیں ’’ زمینی حقائق ‘‘سے آگاہ کیا ۔ شنید ہے کہ برادر بزرگ اپنے بیانیہ سے رجوع کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں اور اسحاق ڈار کے مطابق وہ اب یہ معاملہ اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔ نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ ہیں، ان کے جرم کی نوعیت خواہ کچھ بھی رہی ہو ۔ صحیح یا غلط انہیں سزا عدالت نے دی ہے۔ عدالت کے فیصلہ کی وجہ سے ہی انہیں علاج کے لئے ضمانت پر لندن جانے کی اجازت ملی تھی ۔ اب عدالت ا ن کی واپسی کی منتظر ہے ۔ وہ آئیں اور خود کو عدالت کے روبرو کریں ۔یہ ہی درست اور با وقار راستہ ہے جسے اختیار کیا جاناچاہیئے۔ سیاسی سرگرمیاں،جلسے ،جلوس اور ایک بار پھر وزارت عظمٰی پر متمکن ہونے کی ان کی آرزو سب بعد کی باتیں ہیں۔ جو سیاسی قائد تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو ، اسے قانون کی پاسداری کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہونا چاہیئے مگر پا کستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ سیاسی قائدین ہوں یا کسی بھی بااختیار منصب پر براجمان شخصیات خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔پاکستان میں احتساب کی روایت کبھی پختہ نہیں رہی ۔اسے ہمیشہ ایک سیاسی حربہ کے طور پرآزمایا گیا جس میںاحتساب سے زیادہ انتقام اور سیاسی دبائو کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان بالعموم اپنی قابل احتساب کارکردگی پر بھی انتقام کا شور مچاتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں کامیاب رہتے ہیں اور احتساب کا عمل ہمیشہ ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ نواز شریف کا موجودہ سیاسی بیانیہ ریاست کی موجودہ سیاسی اور معاشی حالت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ ایک سیاسی قائد کے طور پر ان کے پاس ملک کی معیشت کی بہتری کا کوئی لائحہ عمل ہونا چاہیئے تھا ۔کوئی ایساواضح پروگرام جس سے ملک میں موجود سیاسی فضا ء کو بہتر بنایا جاسکے۔ سیاسی استحکام سے ہی معیشت کے استحکام اور بہتری کی راہیں کھل سکیں گی اور ریاست کا عالمی سطح پر تاثر بہتر بنایا جا سکے گا۔ ان کی سیاسی جماعت جویہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ ملک کو موجودہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں تاہم ان کے بیانیہ سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا ۔وہ حسب سابق اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا تاثر دیتے ہوئے بالآخر اس سے ہی مصالحت پر آمادہ ہو جائینگے۔ نواز شریف کی سیاست اب تک اسی روش پر گامزن رہی ہے ۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہی یہ ہے کہ سیاستدانوں میں تحمل، تدبر اور دور اندیشی کا فقدان ہے ۔ جمہوری سیاسی نظام میں اختیارات کی تقسیم اور اداروں کا احترام اور استحکام بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں اداروں کے بجائے شخصیات میں اختیارات کے ارتکاز کو ہمیشہ ہی پیش نظر رکھا گیا ہے جس کا نتیجہ ( خمیازہ) ریاست کے سیاسی نظام اور اس کی عوام کے سامنے ہے۔ جمہوری اقدار سے وابستگی محض نعروں کی حد تک ہے۔ سیاسی جماعتوں پر کچھ شخصیات اور خاندانوں کا اجارہ ہے جس کے استقرار پر ہی ان کی سیاست کا انحصار ہے ۔ سیاسی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کو اثر انداز ہونے کی پوری طاقت اور توانائی حاصل ہے۔سماج کے بااثر طبقات نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ان کے باہمی مفادات اور مراعات کے حصول کی کشمکش نے اداروں کی وظائفی اہلیت اور ان کی آئینی حدود کو شدید متاثر کردیا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی حرکیات اور قومی وسائل کی تقسیم میں عوام کا حصہ سب سے کم ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جو اقتدار کا حصہ بنتی ہیں عوام کو کم ہی اہمیت دیتی ہیں ۔پاکستان کی اب تک کی سیاسی تاریخ اسی تواتر پر استوار ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکالنے کا کوئی واضح لائحہ عمل اور وژن موجود نہیں ہے۔ بصیرت اور ارادے سے محروم سیاست دانوں کی ریاست کے حقیقی مسائل پر توجہ ہی نہیں ہے۔ نواز شریف کا موجودہ سیاسی بیانیہ بھی پاکستان کے سیاسی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ان کا بیانیہ محض ایک خیال خام ہے جس کے پختہ ہونے کا انہیں خود بھی یقین نہیں ہے ۔ ایک سیاسی قائد کی حیثیت سے سب سے پہلے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیئے پھر عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ہی انہیں اپنے سیاسی سفر کو آگے بڑھانا چاہیئے۔اگر وہ واقعی پاکستان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی اہمیت اور وقعت کے خواہاں ہیں تو پھر انہیں اپنا طرز سیاست کو بدلنا ہوگا ۔ عوام کی بات کرنا ہوگی ۔ اقتدار کے لئے عوام پر بھروسہ کرنا ہوگا ۔ ان کے لئے جینا اور ان کے لئے ہی مرنا ہوگا تب جا کر وہ تاریخ میں اپنا مقام بنا پائینگے۔مگر یہ کام ہے مشکل جو ان کی پر آسائش طرز زیست کی روشنی میں اور بھی مشکل نظر آتا ہے!!