پاکستان میں نظامِ عدل کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ یہ دو ستونوں پر کھڑا ہے: عدلیہ اور وکلا۔ بعض اوقات انھیں دو پہیوں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں اسے دو جہتی زاویہ نظر (two-dimensional/2D perspective) کہتا ہوں اور میرے نزدیک یہ زاویہ نظر درست نہیں ہے کیونکہ اس میں نظامِ عدل کے ایک اہم جزو ’’ قانون کے اساتذہ ‘‘کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس ٹو-ڈی اپروچ کا نتیجہ دیکھنا ہو تو پاکستان میں قانون کی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے مسئلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھ لیجیے جو 2018ء میں آیا ہے۔ اس فیصلے کا پس منظر یہ تھا کہ قانون کی تعلیم کے معیار پر کئی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا، پاکستان بار کونسل نے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پیش کیا اور پھر بار اور بنچ نے مل کر کچھ امور طے کرکے انھیں فیصلے میں شامل کیا اور پھر وہ فیصلہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور قانون کی تعلیم دینے والے اداروں پر لازم ہوگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ قانون کی تعلیم دینے والوں، یعنی جامعات میں قانون کے اساتذہ، کو سرے سے سنا ہی نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فیصلہ عجیب تضادات کا مجموعہ بن گیا اور اس نے پرانے مسائل حل کرنے کے بجائے نئے مسائل کھڑے کیے۔ مثلاً فیصلے میں لازم کیا گیا ہے کہ قانون کی تعلیم دینے والے ہر ادارے میں ہر 100 طلبہ کیلئے 5 مستقل اساتذہ اور 5 وزٹنگ اساتذہ ہوں۔ مزیدیہ کہا گیا ہے کہ یہ 5 وزٹنگ اساتذہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کا کم از کم 5 سال کا تجربہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ یونیورسٹیوں اور لا کالجوں پر لازم ہوگیا کہ ایسے وکلا کو اپنے ساتھ وزٹنگ اساتذہ کے طور پر رکھیں، لیکن بنچ اور بار دونوں کو علم نہیں تھا کہ قانون کی 5 سال ڈگری کے پہلے سال تو قانون کا کوئی ایک بھی کورس نہیں ہوتا اور دوسرے سال بھی بس 2،3 کورس ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ ابتدائی دو سال دراصل بی اے کی ڈگری کے ہوتے ہیں اور اس میں عمومی نوعیت کے کورسز (انگریزی، مطالعہ پاکستان، اسلامیات وغیرہ)ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں پہلے سال 5 وکلا کو وزٹنگ اساتذہ کے طور پر کیوں لیا جائے؟ 2021ء میں ایک موقع پر میں نے جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی موجودگی میں اس فیصلے پر تنقید کی۔ یہ فیصلہ لکھا انھوں نے ہی تھا، تو انھوں نے سوال کیا کہ آپ کا بنیادی اعتراض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بار نے بنچ کے سامنے اساتذہ کی شکایت رکھی اور بنچ نے ہمیں سنے بغیر فیصلہ دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے ایچ ای سی کو سنا تھا۔ میں نے کہا کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کی نمائندہ نہیں ہے بلکہ کئی امور میں یونیورسٹیوں اور ایچ ای سی کے موقف میں 180 درجے کا فرق پایا جاتا ہے۔ میں نے مزید عرض کیا کہ اس فیصلے میں ایچ ای سی کو "ریگولیٹری اتھارٹی" کہا گیا ہے حالانکہ ایچ ای سی کا آرڈی نینس اسے کوئی ایسا اختیار نہیں دیتا جس کی بنا پر اسے ریگولیٹری اتھارٹی کہا جاسکے۔ اس سے آگے انھوں نے پوچھا نہیں اور میں نے بتایا نہیں۔ یہ بات بھی یاد دلانے کی ہے کہ جب 2017ء میں ابھی یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا تو میں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کے دیگر اساتذہ کے تعاون سے ایک پروگرام منعقد کیا جس میں ہم نے پاکستان کی بڑی جامعات سے شعبہ ہائے قانون کے سربراہان کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے میں نے یہ موقف رکھا کہ نظامِ عدل کیلئے ٹو-ڈی کے بجائے "تھری-ڈی اپروچ" اختیار کرنے کی ضرورت ہے، یعنی بار و بنچ کے بجائے بار، بنچ اور اکیڈیمیا۔میں نے اس مجلس میں یہ تجویز بھی دی کہ سپریم کورٹ میں اس کیس میں قانون کے اساتذہ کو فریق بننا چاہیے۔ ساتھ ہی ایک تجویز یہ بھی دی کہ قانون کے اساتذہ کی مشاورتی تنظیم ہونی چاہیے۔ استادِ محترم پروفیسر افضال احمد کاکاخیل اور عزیز دوست ڈاکٹر عطاء اللہ خان وٹو نے اس تنظیم کا نام بھی TALENTتجویز کیا ، جو مخفف تھا Teachers Association for Legal Education and Training، یعنی "قانون کی تعلیم اور تربیت کیلیے اساتذہ کی تنظیم"۔ ان تجاویز سے سبھی نے اتفاق کیا اور مذکورہ غیر رسمی تنظیم وجود میں آبھی گئی جو آج تک ایک واٹس ایپ گروپ کی صورت میں موجود ہے۔ البتہ عدالت میں فریق بننے کیلئے عملی اقدام کی خاطرپھر صرف اسلامی یونیورسٹی ہی کو آگے آنا پڑا۔ میں اس وقت وہاں شعبہ قانون کا سربراہ تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے وکیل کے ذریعے اس مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔ بنچ نے اس درخواست پر فیصلہ نہیں دیا لیکن اصل مقدمے کا فیصلہ سنادیا۔ قانون کے اساتذہ اور بار و بنچ کے درمیان فاصلے کا نقصان صرف قانون کی تدریس کے معاملے میں ہی نہیں ہوا بلکہ اس کا نقصان بار اور بنچ کو بھی ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کی تدریس اگر صرف نظری انداز میں کی جائے اور اس میں عملاً نظام جیسے چل رہا ہے، اس سے لاتعلقی ہو، تو یہ تدریس کھوکھلی ہوگی اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال کی ڈگری کے بعد طلبا جب کچہری میں جاتے ہیں تو ان کا عموماً پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ انھیں کچھ بھی نہیں آتا اور یہ کہ انھوں نے پانچ سال ضائع کیے ہیں! دوسری طرف کچہری کے جو وکیل صرف "عملی گر" سکھانے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، وہ قانون کے اصولوں اور ان کے پیچھے اخلاقی اقدار سے ناواقف ہونے کی بنا پر عدل و انصاف کے تقاضے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح جو جج صرف"روٹین" کے "فائل ورک" پر ہی یقین رکھتے ہیں، وہ اپنے منصب کے ساتھ پہلے اور اپنے سامنے موجود مقدمات کے فریقوں کے ساتھ دوسریظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر جج اپنے فیصلوں میں یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق کو مد نظر رکھیں، اور اسی طرح اگر اساتذہ بھی اپنی تحقیق میں عدالتی فیصلوں کے تنقیدی جائزے پر خصوصی توجہ کریں، تو اس سے نظامِ عدل میں یقیناً بہتری آئے گی۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے شفا تعمیرِ ملت یونیورسٹی میں آئینِ پاکستان کی پچاس سالہ تقریبات کی مناسبت سے خصوصی خطبات کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں اعلی عدلیہ کے ججز اور سپریم کورٹ کے مایہ ناز وکلا کے علاوہ ممتاز پارلیمنٹیرینز اور تجزیہ کاروں کو آئینِ پاکستان کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی دعوت دی جائے گی۔ اس سلسلے کا پہلاخطبہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا جبکہ دوسرے خطبے کیلئے آج 7 جون کو سینیٹر رضا ربانی صاحب تشریف لارہے ہیں۔ نظامِ عدل کیلئے قانون کے اساتذہ کی حیثیت تیسرے ستون کی نہ سہی، "پارسنگ" کی ضرور ہے۔ جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ پارسنگ پشتو میں اس چھوٹے سے پتھر کو کہتے ہیں (اردو اور فارسی میں "پاسنگ") جس کی اپنی حیثیت خواہ بظاہر کمزور ہو لیکن ترازو کے پلڑوں کا وزن برابر کرنے کیلئے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے بغیر توازن قائم نہیں رہتا۔ توازن ہی عدل کی روح ہے۔