کراچی کی مصروف اور اہم سڑک شاہراہ فیصل پر ٹریفک حسب معمول رواں دواں تھا ۔ایک چمکتی ہوئی لمبی سیاہ کار کا شیشہ نیچے ہوا اور ایک شاپر گاڑی سے باہر سڑک پر اچھال دیا گیا ۔شاپر میں موجود کیلے کے چھلکوں اور مختلف قسم کے ریپرز صاف ستھری سڑک پر بکھر گئے ۔گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی اور اس میں موجود مرد و خواتین کے اس سڑک سے لاتعلقی کے نشانات پیچھے ر ہ گئے۔ پاکستا ن کے سب سے بڑے شہر میں اس طرح کا سماجی رویہ حیرت انگیز حد تک افسوس ناک ہے ۔ یہ بیگانگی اور لا تعلقی کس ذہنی کیفیت کی نمائندہ ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں ؟ پھر کراچی پر ہی کیا موقوف پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اس طرح کے رویوں کا اظہار ایک معمول بن چکا ہے۔ سڑکوں پر موجود بے ہنگم ٹریفک ، شور مچاتی تیز رفتار موٹر سائیکلز، پیدل چلنے والے کسی ضابطے کی پابندی سے مبرا ،خوانچہ فروش، ریڑھی بان ہر کوئی عجلت میں ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ ودو میں ہلکان ہوا جارہا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات پرمشتعل ہو جانا ، احتجاج پر اتر آنا، املاک کو نقصان پہنچانا ، سڑکیں بند کر دینا یہ سوچے بغیر کہ ایمبولینس اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو بھی ان سڑکوں سے گزرنا ہوتا ہے ۔ تشدد ، غصہ ، عدم برداشت لاتعلقی، اور مایوسی پر مبنی رویوں نے سماجی ساخت کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ شہری شعور کے اظہار کی اس پسماندگی کے باعث ریاست سے اپنائیت کے مظاہرات کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ لوگوں میں اپنے ملک سے ،اس کے شہروں سے ، سڑکوں سے، محلوں اور گلیوں سے انسیت کے بجائے اجنبیت بڑھ چکی ہے۔ تعلیمی اداروں کے پھیلائو اور خواندگی کی بڑھتی ہوئی شرح کے باوجود فکری افلاس فزوں تر ،سماجی شعور ناپید اور سماجی اقدار انحطاط کا شکار ہو رہی ہیں۔ افراد ہوں یا ادارے ، ہر سطح پر قانون شکنی اور اس سے انحراف معمول بن چکا ہے۔ سماجی اقدار کسی بھی سماج کے معاشی ،سیاسی اور اخلاقی نظام کے زیر اثر ترتیب و تشکیل پاتی ہیں سچائی کا ساتھ دینا ، اختلاف رائے کو برداشت کرنا ، وقت کی پابندی اور اس کی اہمیت کو سمجھنا ، قانون شکنی سے گریز ، بھائی چارگی، ا من و سلامتی اور شہری ہونے کی حیثیت میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا بنیادی نوعیت کی سماجی اقدار سمجھی جاتی ہیں۔ اور ان کی پاسداری زندگی کی احسن ترتیب اور سماج کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ انسانی تمدن ان ہی اقدارسے نمو پاتا ہے اور ان ہی کے زیر اثر کسی سماج کے مجموعی روئیے تشکیل پاتے ہیں اور شہریوں کا ریاست کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ پاکستان میں سماجی اقدار کے انحطاط کی اس صورتحال میں محض شہری ہی ذمہ دار نہیں ہیں، ریاست کے ادارے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ شہریوں میں سماجی اقدار کی نمو اور ترقی ریاستی اداروں کی کارکردگی سے ہی مشروط ہوتی ہے۔ یہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے معاشی ،مذہبی اور سیاسی ماحول کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ابن خلدون نے بھی اپنے تاریخی مقدمہ میںانسان کو سراسر اس کے ماحول کی پیداوار قرار دیا ہے ۔ اس تناظر میں پاکستان کا مجموعی ماحول تشویش ناک حد تک بگڑ چکا ہے۔ مذہب سے جذباتی وابستگی کے باوجود مسلم اکثریتی ملک میں نظم و ضبط،اطاعت،قربانی، ایثار، قناعت ، صبر وتحمل، برداشت،بھائی چارگی اور احساس ذمہ داری جیسے اوصاف ، جن کی تعلیم اور تربیت کا ایک مکمل نصاب، نماز ،روزہ، زکواۃ،اور حج کی صورت، شعائر اسلام میں موجود ہے، ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں میں مفقود ہو چکے ہیں۔ قائد کی بتائی ہوئی یقین محکم، اتحاد اور نظم و ضبط کی نصیحت کو طغروں میں سجا کر دیواروں کی زینت بنادیا گیا ہے ۔ ان پر عمل کسی نے بھی ضروری نہیں سمجھا۔ سیاسی عدم استحکام ، معاشی عدم مساوات اورانتظامی شکستگی کے تسلسل نے لوگوں میں ریاست سے تعلق کو کمزور اور سماجی اقدار کی پابندی کو شدید متاثر کیا ہے۔ قانون کی پاسداری ، جو کسی بھی مہذب سماج کی بنیاد ہوتی ہے ، اس سے گریز کی کیفیت پاکستان میں ہر سطح پر بدرجہ اتم اور قابل فخر شکل میں موجود ہے۔ افراتفری ،انتشار اور غیر یقینی صورت حال میں سماجی اقدار کا پنپنا ممکن نہیں رہتا۔ سیاسی اور ریاستی اداروں کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث سماجی اقدار اور شہری شعور کی نمو کا عمل نہ صرف رک چکا ہے بلکہ انحطاط کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے۔ہر کوئی عدم تحفظ،عجلت ، یاسیت اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ مساجد کے منبر ہوں یا صو فیاء کی خانقاہیں،دینی مدارس ہو ں یا اعلی تعلیمی ادارے، منتخب نمائندوں کے ایوان ہوں یا بااختیار افسروں کے بڑے دفاتر،قانون کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے ہوں یا انصاف کی مسند پر براجمان عزت مآب منصفیں۔ یہ سب اپنی وظائفی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں اور غفلت کا شکار رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ آج سماجی انتشار کی صورت ہمارے سامنے ہے۔اگر اس کیفیت کی حساس نوعیت کا اب بھی ادراک نہیں کیا گیا تو پھر سماج کی مکمل تباہی مقدر ہوگی۔اب بھی اس تباہی سے بچنے کا وقت ہے ۔ اس کے لئے ریاست کے تمام اداروں کو اجتماعی طور پر متحرک ہونا ہوگا ۔ ریاست کے اداروں کی کارکردگی کا انحصار سیاسی قیادت کی دیانت دارانہ اہلیت اور سماج کی ترقی کے مستحکم ارادے سے مشروط ہے،جس سے پاکستان کی سیاسی قیادت بالعموم محروم نظر آئی ہے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت کی اہلیت ، اس کی ترجیحات اور مقاصد بالعموم محدود سیاسی اور مالیاتی مفادات کے تابع رہے ہیں ۔ سماج کی ترقی کبھی بھی ان کا ہدف نہیں رہا ۔ سیاسی انتشار،معاشی پسماندگی اور عدم تحفظ کا تسلسل پاکستانی سماج میں اقدار کے انحطاط کے بنیادی اسباب رہے ہیں جن کا سد باب ضروری ہے ۔ عوام میں ریاست سے متعلق پیدا شدہ عمومی بیگانگی محض نعروں اور نغموں سے اب ختم نہیں ہوگی، اس کے لئے سیاسی اور ریاستی اداروں کو عوام دوست بننا ہوگا،ان کے لئے سوچنا ہوگا اور ان کے مفاد میں اقدامات کرنا ہونگے۔ کرپشن اور مختلف النوع بد عنوانیوں نے اداروں اور شہریوں کے درمیان مغائرت کو خلیج کو وسیع کر دیا ہے۔دولت کی حرص و ہوس نے اداروں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کردیا ہے موجودہ سماجی اور شہری اقدار کا انحطاط سماج اور ریاست کے لئے سرخ نشان تک پہنچ چکا ہے ۔ بہت دیر ہو چکی ہے ۔ یقین جانئے بہت دیر ہو چکی ہے اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ قیادت خواہ سیاسی ہو ،انتظامی ہو یا عسکری ہر ایک کو اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنا ہوگی ۔غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا ۔ان کی تلافی کرنا ہوگی ۔تب ہی سماجی استحکام ممکن ہوگا اور تب ہی ریاست مستحکم ہوگی ۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔