چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جس کا پوری قوم کو پہلے ہی سے اندازہ ہے کہ کیا ہو گا اور یہ اتنا ہی یقینی ہے جتنا فروری 2024ء میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ واضح ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا آئینی اختیار ہے کہ جو اس کی سمجھ میں آئے اس طرح آئین کی تشریح کر دے ہم کون ہوتے ہیں اس کو چیلنج کرنے والے لیکن ہم بحیثیت پاکستانی اس تشویش کا اظہار تو ضرور کر سکتے ہیں کہ کسی قانون یا اس کی تشریح کے نتیجے میں اس چیز کی اہمیت کم نہیں ہو جانی چاہیے کہ قوم کو بہرحال ایماندار اور سچی قیادت کی ضرورت ہے جو دکھوں کی ماری اس قوم کی کشتی کو پار لگا سکتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم پون صدی گزرنے کے باوجود بھی واضح طور پر نہ تو کوئی قومی ایجنڈا ترتیب دے سکے ہیں نہ ہی کوئی واضح جمہوری روایات رائج کر سکے ہیں نہ ہی آئین و قانون کو کوئی پائیدار شکل دے سکے ہیں اور نہ ہی قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی سیاسی و انتظامی قیادت کے کردار کے کوئی ایسے خدوخال ترتیب دے سکے ہیں جن کے معیار پر اسے پرکھ سکیں اور اپنی مستقبل کی قیادت کا فیصلہ کر سکیں جس سے یہ امید بھی کر سکیں کہ ملک کو صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے گی۔ قومی معاملات پر نظر دوڑائیں تو ہر چیز پر دھند چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ سیاسی و انتظامی انتشار ہمیشہ اپنی انتہائوں ہی کو چھو رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی چیز پر قومی اتفاق رائے ہونے کی بجائے تقسیم کی لکیر گہری سے گہری ہوتی جاتی ہے اس سے قومی سطح پر تو بے یقینی کی کیفیت کے نتیجے میں ہر کوئی اپنے اپنے ذاتی ‘ گروہی یا سیاسی مفادات کے حصول میں ہی لگا رہتا ہے۔ اس مفاداتی ٹکرائو کی وجہ سے جس گروہ کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے وہ اس کے توازن کو پوری طرح اپنے حق میں جھکا لیتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان نے اس وجہ سے بہت نقصان اٹھایا کہ ملک میں آزاد پارلیمانی نظام ہونا چاہیے یا پھر صدارتی؟ اگر پارلیمانی بھی ہو تو کیا صدر کے پاس یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اگر پارلیمنٹ یا منتخب وزیر اعظم کی کارکردگی سے کسی وجہ سے مطمئن نہیں ہے تو پورے نظام کو لپیٹ کر سب کو چلتا کرے؟ یہ نو آبادیاتی دور کی یادگار اختیار تھا جب مقامی لوگوں کو صوبائی حکومتی معاملات کی بھاگ ڈور دی گئی تو ساتھ یہ گورنر کو اختیارات دے دیے گئے کہ وہ مطمئن نہ ہونے کی صورت میں منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس اختیار کا بہت بے رحمانہ استعمال کیا گیا اور کبھی کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس کے نتیجے میں عوامی نمائندوں اور مقتدرہ کے درمیان ایسی کشمکش نے جنم لیا کہ جب عوامی نمائندوں کے پاس طاقت آئی تو وہ ریاستی مقتدرہ کے نمائندے صدر سے یہ اختیار چھین لیتے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین بناتے ہوئے کیا یا پھر بعد میں میاں نواز شریف نے 1997ء میں 1973ء کے آئین میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے یا پھر 2010ء میں آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بحیثیت صدر مملکت خود ایسے اختیارات پارلیمنٹ کو سرنڈر کر کے کیا۔ دوسری طرف جب بھی مقتدرہ کو موقع ملا تو اس نے یہ اختیارات واپس صدر کو منتقل کر دیے تاکہ نہ صرف وزیر اعظم پر تلوار لٹکا کر رکھی جا سکے بلکہ جب جی چاہے اسے گھر کی راہ دکھا دی جائے۔ جنرل ایوب خاں ہوں یا جنرل ضیاء الحق یا پھر جنرل پرویز مشرف انہوں نے بالترتیب 1962ء کے آئین یا 1973ء کے آئین میں آٹھویں اور سترہویں ترامیم کے ذریعے یہی کیا۔ جب مقتدرہ اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر آئین میں مرضی کی ترامیم کر سکے تو گزشتہ چار اسمبلیوں میں بھی کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا اور پہلے جو کام صدر مملکت کیا کرتے تھے اب وہی کام اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ تو گویا ابھی بھی اس معاملے پر آئین کا اونٹ کسی بھی کروٹ نہیں بیٹھ سکا ہے۔ یہی حال صوبائی خود مختاری کا ہے جب سے پاکستان بنا ہے چھوٹے صوبے خود مختاری کا مطالبہ کرتے آئے ہیں اور اب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اتنی خود مختاری دے دی گئی ہے کہ پلڑا صوبوں کے حق میں جھک گیا ہے۔اب بار بار آوازیں آ رہی ہیں کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ یہ بھی اسی طرح ہے جیسے تجاویز آتی رہتی ہیں کہ مقتدرہ کو ملکی سیاسی و انتظامی معاملات میں آئینی طور پر شامل کیا جائے کیونکہ عملی طور پر اب دوبارہ پھر یہ پلڑا مقتدرہ کے حق میں مکمل طور پر چمک چکا ہے۔ یہی صورتحال اس معاملے پر بھی پیدا ہو چکی ہے کہ ملک کی انتظامی و سیاسی قیادت صادق اور امین ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن اس کے پیچھے یہ سوچ نہیں ہونی چاہیے کہ قوم کی اس خواہش میں ہی کوئی خرابی ہے کہ اس کی قیادت ایماندار لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ دنیا کا کوئی ملک کامیاب نہیں ہو سکتا نہ ہی کوئی ترقی یافتہ ملک برداشت کرتا ہے کہ اس کی قیادت بدعنوان لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے۔ پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ سے لے کر پورے نظام کا پلڑا اب دوسری طرف جھکنے والا ہے۔اب پھر اس معاملے پر بھی ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کو جانے والے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہمارے ہاں توازن نہیں ہے ترازو کے دونوں پلڑے اپنا توازن کیوں برقرار نہیں رکھ سکتے کیوں ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کسی گھڑیال کے پینڈولم کی طرح جو توازن میں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ ہم ترازو کیوں نہیں بن سکتے ہم گھڑیال ہی کیوں ہیں؟ اس سب کا ایک ہی جواب ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ذاتی مفادات و خواہشات کو قومی و اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے جنگل کے جانوروں کی طرح کسی اصول و ضابطے پر متفق ہونے کی بجائے باہم لڑتے رہتے ہیں۔