ایک خبر کے مطابق گورنر سندھ کی کوششوں سے کراچی کی آبادی دو کروڑ تسلیم کرلی گئی ہے۔ترجمان نے گورنر سندھ کی ان کوششوں سے بھی آگاہ کیا جو اس سلسلے میں گورنر کی جانب سے کی گئیں۔یہ خبر یا شاید خوشخبری اہل کراچی کے لئے کسی قدر اطمنان کا باعث ہو۔ تاہم اس سے مردم شماری کے طریقہ ء کار اورنتائج سے متعلق بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔( اگرچہ اس سے متعلق سوالات اور شبہات تو ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں) 2017 میں کی جانے والی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کی گنتی سے کراچی میں فعال سیاسی جماعتیں ، بالخصوص جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان )، مطمئن نہیں تھیں اور اس پر مسلسل آواز بلند کر رہی تھیںخود سندھ کی حکمران سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی سندھ کی آبادی کم شمار کئے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔اس تمام صورتحال کے بعد 2023 میں ایک بار پھر مردم شماری ( ڈیجیٹل ) کی مشق شروع کی گئی جس کے نتائج مرحلہ وار جاری کئے جاتے رہے تاہم یہ نتائج بھی تنقید کا نشانہ بنے اور ان پر سندھ بشمول کراچی اور بلوچستان نے عدم اطمنان کا اظہار کیا۔سیاسی جماعتوں کے دبائو کے بعد انہیں تبدیل کیا گیا اور گزشتہ دنوں حتمی نتائج مرتب کرتے ہوئے اس کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظور ی بھی حاصل کرلی گئی۔ آبادی کی یہ شماریات اب بھی بلوچستان ،دیہی سندھ اور کسی حد تک کراچی کے لئے قابل اطمنان نہیں ۔یہ شماریاتی نتائج کس قدر درست ہیں یا اس میں ابھی کئی ابہام پوشیدہ ہیں یہ تو وقت کے ساتھ ظاہر ہو ہی جائیںگے ۔سردست جس پہلو کی طرف نشاندہی مقصود ہے وہ اس کالم کی ابتدائی سطروں میں بیان کی گئی اس حقیقت سے متعلق ہے جس میں گورنر سندھ کی کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں کراچی کی آبادی میں مزیدید بارہ لاکھ کا اضافہ ممکن کیا جاسکا۔اس اضافہ کو متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان ) نے بھی اپنا کار نمایاں قرار دیا ہے۔ کراچی کی آبادی جو2017 کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چوبیس ہزار ظاہر کی گئی تھی ۔ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے ابتدائی نتائج جو جاری کئے گئے تھے اس کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ اکیانوے لاکھ چوبیس ہزار شمار کی گئی تھی جس پر عدم اعتماد کی گیا ۔ اب سیاسی دبائو اور سیاسی مصلحتوںکے پیش نظر کراچی کی آبادی کو دو کروڑ تین لاکھ بیاسی ہزار تک بڑھاکر سب کے لئے قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ یہ اب بھی کراچی کی درست آبادی سے کم ہے۔ کراچی کی آبادی کے متعلق خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ تین کروڑ سے بھی زائد ہے۔ شماریات کی قبولیت اور اس کی شفافیت درست طریقوں کے مطابق اکٹھا کرنے میں ہے نہ کہ سیاسی مصلحتوں اور دبائو کے زیر اثر شماریات کو قابل قبول بنا نے کی کوششوں پر منحصر ہے۔جیسا کہ خبر میں گورنرسندھ کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ مردم شماری کا عمل ایک طریقہ ء کار اور نظم کے تحت شماریاتی اصولوں کے مطابق انجام پاتا ہے۔ اس کے نتائج انتہائی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ مرتب کئے جاتے ہیں یا کئے جانے چاہیئں مگر موجودہ مردم شماری کے نتائج جس طرح تبدیل ہوئے اس سے مردم شماری کی یہ سا ری مشق ، جس پر پہلے ہی اعتبار کم تھا ، مکمل طور پر اعتبار سے محروم ہو چکی ہے۔نتائج کی تبدیلی کیسے ممکن ہوئی ،کہاں غلطی ہوئی اور کیسے اس کی تلافی کی گئی اور غلطی کیونکر ہوئی۔یہ سب واضح کیا جانا چاہیئے تھاجو کہ نہیںکیا گیا۔ اگر آبادی کی گنتی کو سیاسی جماعتوں ،مصلحتوںاوردبائو سے متاثر ہونا ہے تو پھر مردم شماری کا یہ تماشہ ( یا ڈرامہ ) کرنے کی کیا ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو ایک اجلاس بلاکر ان کی ضرورتوں اور مفادات کو سامنے رکھ کر آبادی کا تعین کر لیا جائے اس طرح قومی وسائل کے ضیاع اور افرادی قوت کا بے مقصد استعمال سے بھی بچا جاسکے گا۔مردم شماری ہو یا کوئی اور ریاستی فریضہ اس میں شفافیت تب ہی ممکن ہے جب وہ ہر طرح کے سیاسی اور انتظامی دبائو سے آزاد ہو ۔اداروںکی توقیر ان کی کارکردگی سے ہی ہوتی ہے اور بہتر کارکردگی ہر خوف اور عصبیت سے مبرا آئین کے مطابق فرائض انجام دینے میں مضمر ہے۔ پاکستان میں مردم شماری کا عمل مکمل طور پر سیاسی مفادات سے آلودہ ہو چکا ہے۔ آبادی کی درست گنتی کی محض سیاسی اہمیت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے درست اعدادو شمار سے معاشی اورسماجی شعبوں میں درست منصوبہ بندی کا انحصا ر بھی اسی پر ہے ۔ قومی وسائل اور قانون ساز اداروں میں نمائندگی جیسے اہم معاملات آبادی کی گنتی پر ہی طے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے وفاق میں شامل ناہموار اور غیر متوازن اکائیوں کی موجودگی میں آبادی کی شفاف شماریات اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وفاقی اکائیوں کے مابین معاشی عدم توازن، علاقائی اور لسانی تفاوت اور سیاسی نا پختگی کے باعث مردم شماری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان جیسے وفاق میں اسے جتنا شفاف ہونا چاہیئے بد قسمتی سے یہ اتنا ہی غیر شفاف اور سیاسی مصلحتوں سے آلودہ کیا جاچکا ہے ۔ ذمہ دار اور فیصلہ ساز ادارے ، دانستہ یا نا دانستہ، کیامردم شماری کے غیر شفاف ہونے کے دور رس نتائج سے آگاہ نہیں ہیں ؟ آبادی کی سیاست کا خمیازہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت یہ ریاست پہلے ہی بھگت چکی ہے۔اب اس عمل کو ترک کرنا ہوگا ۔ قومی وسائل کی درست تقسیم، سیاسی نمائندگی کا تعین اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے آبادی کی گنتی میں شفافیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پاکستان شماریاتی بیورو کو جو مردم شماری کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے اسے تبدیل شدہ نتائج کے ضمن میں وضاحتیں اور تفصیلات دینی چاہیئں تاکہ اس پر عدم شفافیت کے لگے داغ مٹ سکیں۔ وفاق کا استحکام اداروں کی شفاف کارکردگی پر ہی منحصر ہوتا ہے۔اور پاکستان کے سیاسی ماحول میں تو اس کی شدید ضرورت ہے۔