یہ تو طے نہیں کہ خبر کہاں سے پھوٹتی ہے مگر یہ طے ہے کہ طبیب نہیں چاہتے کہ جمہوریت کے زخم پر الیکشن کا مرہم فی الحال لپیٹا جائے۔اس کے لیے نامہ بری اور پیامبری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔مگر جب بھی زائچہ اور قرعہ ڈالا جاتا ہے تاریخ8فروری ہی نکلتی ہے۔مگر چھوٹے بڑے پنڈت۔۔پنڈی کے بھی اورسپریم کورٹ کی کیمسٹری سے آشنا بھی یہی کہتے جا رہے ہیںکہ کہیں خواہش بھی ہے اور کاوش بھی کہ الیکشن آگے چلے جائیں مگر۔ایک پنڈت جو گزرے وقتوں میں سکرین پرعجب کرپشن کی غضب کہانی کا قصہ سنایا کرتے تھے۔حال ہی میں یہ کہتے دیکھے گئے ہیں"تھینک یو جنرل عاصم۔۔وزیرِ اعظم صاحب،وزیرِ خزانہ اور وزیرِ تجارت صاحب آپ کی لیڈر شپ نے کمال کر دیا۔آئی ایم ایف آپ کی معاشی حکمت عملی کی تعریف کر رہا ہے۔روپے کی قدر سنبھل گئی ہے۔ڈالرائزیشن رُک گئی۔سمگلنگ کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔گردش قرضہ تھم گیا۔سٹاک ایکسچینج چڑھ گئی54تک۔ایسے میں الیکشن قریب ہیں،بزنس مین ڈر رہا ہے کہ کہیں الیکشن سے یہ سب سفر رُک نہ جائے،بہہ نہ جائے۔اس لیے"۔ابھی نہ جائو چھوڑ کر،کہ دل ابھی بھرا نہیں،ادھوری آس چھوڑ کر،ادھوری پیاس چھوڑ کر۔نہیں نہیں،ابھی نہیں۔یہ وہ پنڈت ہے جو کراچی کے سب سےEliteعلاقے میں اتنے بڑے گھر میں رہتا ہے کہ وہاں سے ہیلی کاپٹر بھی ٹیک آف کر سکتا ہے۔یہ پنڈت ڈارلنگ ہے مرہم سپلائی کرنے والے حکیموں اور مسیحائوں کی۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) اندر ہی اندر الیکشن کے الجبراء جیومیٹری کا گراف بنا رہی ہے۔نون نے ایک سروے پنجاب میں کروایا ہے اپنی مقبولیت کا اور ایک کراچی میں اپنے انتخابی امکانات کا۔میاں نواز شریف سخت متفکر ہیں،میاں شہباز انہیں سب اچھا کی یقین دھانی کروا رہے ہیں۔مگر نواز سے ہمدردی رکھنے والے ایک پنڈت مجھ سے کہنے لگے کہ نون کے اندرشدید تشویش ہے،الیکشن کے نتائج کے حوالے سے۔نواز شریف نے جو سفر1981ء میں بطور وزیرِ خزانہ شروع کیا،وہاں سے ڈکٹیشن نہیں لوں گاتک۔ جدہ جلا وطنی سے لندن تک اور پھر کئی جذباتی زخم اُٹھانے کے بعد سوچ رہے ہیں کہ کیا ہوا؟کیا پارٹی اور ووٹ بینک بچ گیا؟۔مگر21سے23تک16ماہ نے پارٹی کی ساکھ اور مقبولیت کو جو زخم لگائے وہ آج کل اُن کا مداوا کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔میوزک سے انہیں بہت دلچسپی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ صوفی تبسم کی غزل اکثر سُن رہے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا۔۔ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو۔بات صرف اتنی ہوتی تو خیر تھی مگر اس وقت ایک اور دریا کا سامنا ہے شریف مجھ کو،جو ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا والا معاملہ ہے۔مریم نواز کی خواہش ہے کہ وہ پنجاب کی مُکھ منتری بنیں۔میاں شہباز شریف پنجاب کے لیے سیف آپشن ہیں مگر پنڈی میںپنجاب کے لیے محسن نقوی پسندیدہ آپشن بن رہا ہے۔بزنس کمیونٹی سے لاہور میں ملاقات کے دوران سپہ سالار نے اُن کی پرفارمنس پر خاصے اعتماد کا اظہار کیا۔کنڈلیاں بنتی دیکھنے والے فرماتے ہیں کہ مستقل حکمرانوں کے کانوں میں یہ سرگوشیاں کی جارہی ہیں کہ پنجاب اور مرکز میں ایک جماعت کی حکومت نہیں ہونی چاہیے۔یہ دوبارہ کسی ایکسیڈینٹ کو جنم دے سکتا ہے۔پنجاب میں کوئی اور بندوبست کر لیں،مگر فی الحال یہ فائنل سکرپٹ نہیں۔ نون اسے جانتی ہے اس لیے اس کی پیش بندی کے لیے میاں نواز شریف چوہدری شجاعت کے گھر آئے ۔سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہوئی۔شہباز اور ترین ملاقات مستقبل کے امکانات کی رُو سے ہے۔جہانگیر ترین اور علیم خان کے پاس الیکشن جیتنے والے گھوڑے کم ہیں۔بڑی دوکان ہے مگر پکوان پھیکا ہے۔اس لیے نون سے کہا گیا ہے کہ انہیں بھی ایڈجسٹ کریں۔مسلم لیگ(ن) کے اندر بھی گروپنگ بڑی شدید ہے۔دانیال عزیز،چوہدری نثار یا خاقان عباسی کی بات نہیں کر رہا۔بات ہو رہی ہے مریم گروپ کی جس میں جاوید لطیف،سیف الملوک کھوکھر اور مریم اورنگ زیب کے علاوہ بھی کچھ نام ہیں۔کچھ انکلزبھی ہیں۔ بڑے میاں صاحب کو سب پتہ ہے، اس لیے سبھی کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔لیڈر شپ یہی ہوتی ہے ۔میاں صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بھی سمجھ آ رہا ہے اور انہیں سندھ،بلوچستان اور فوج کو بھی دیکھنا ہے۔ پھر انہیں اُسی سانچے میں پرفارم کرنا ہے، جو ہماری مقتدرہ نے ایک سولین وزیراعظم کے لیے بھٹی میں ڈھال کر بنایا ہے۔ پھر خارجہ پالیسی اور معیشت ہے۔آئی ایم ایف ہے۔الیکشن ملتوی ہو جاتے مگر قاضی فائز عیسیٰ سے سفارتی حلقوں تک کوئی بھی الیکشن کا ملتوی ہونا پسند نہیں کرتا۔اگرچہ ملتوی ہونے پر نہ فضل الرحمٰن کو اعتراض ہے نہ نون کو۔پی ٹی آئی کے دانت لوہے کی پلاس سے منہ سے نکال لیے گئے ہیں۔پیپلز پارٹی کی ڈیل ہو گئی ہے۔وہ ہر طرح راضی ہے۔اسلام آباد اور پنڈی آئی ایم ایف کو دیکھتے ہیں اور یہ ادارہ امریکہ کی طرف۔امریکہ یوکرائین اور اسرائیل کی وجہ سے بدحواس ہے۔آئی ایم ایف آنے والی منتخب حکومت سے ڈیل کرنا چاہتا ہے۔مستقل گاڈ فادرز چاہتے ہیں کہ یہ سب نگرانوں کے ساتھ کیا جائے۔اس لیے تاخیر کی خواہش ہے مگر بیرونی دبائو پر اور قاضی صاحب کے اسٹینڈ پر الیکشن اپنے وقت پر ہونے جا رہے ہیں۔ کچھ فیکٹر جو پہلے ہوا میں لٹک رہے تھے اب سیٹل ہوتے نظر آ رہے ہیں، جیسے عمران فیکٹر جو اب "مثبت"سمت میں چل پڑا ہے۔ الیکشن میں تاخیر کی کاوشیں اب بھی جاری ہیں۔اب تک کے ستاروں کی پوزیشن، اور بقول راھو اور کیتو الیکشن8فروری کو ہی ہوں گے اگرچہ نتائج پر سب کا "ہاسا"نکل سکتا ہے۔ناصرہ زبیری کے چند اشعار پیش ہیں جن کا سیاسی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں۔