امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کر کے دنیا بھر کے امن پسند عوام اور سماجی تنظیموں کی تنقید کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ہے اس لئے کہ اس ویٹو کو امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے لئے غزہ میں محصور فلسطینیوں کے خلاف تباہ کن بمباری کا سلسلہ جاری رکھنے کی شہہ کے طور پر لیا جا رہا ہے۔پندرہ میں سے تیرہ ارکان کی حمایت اور ایک رکن کا غیر جانبدار رہنا اس بات کا مظہر ہے کہ تمام دنیا کی منشا یہی ہے کہ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرے۔ یہ ظلم و ستم کون سی حدیں پار کر گیا ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ جیسا ملک جو حقیقتاً اسرائیل کے قیام کا ذمہ دار ہے، وہ بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے اور اس نے قرار داد پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ فرانس جو کہ اتنا ہی اسرائیل کا حامی ہے، جتنا برطانیہ یا امریکہ لیکن اس نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکان میں سے تین نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ آپ کسی بھی زاویے سے جائزہ لیں تو آپ یہی نتیجہ نکال سکیں گے کہ دنیا تقریباً اس مطالبے پر متحد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے لیکن اسرائیل ہے کہ اس کا طاقت کا غرور اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہونے دے رہا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ حماس نے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا کر اچھا نہیں کیا لیکن اس کے ردعمل میں پورے کے پورے غزہ کو ہی ملیا میٹ کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے اتنے شدید ردعمل کے پیچھے اسرائیل کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس قدر شدید سزا دینا کہ غزہ یا مغربی کنارے کی طرف سے کوئی فلسطینی اس قابل ہی نہ رہے کہ اسرائیل پر پھر کبھی سوچ بھی سکے۔ دوسرا یہ کہ غزہ میں فلسطینیوں کا زندگی گزارنا اس قدر مشکل بنا دیا جائے کہ بالآخر مجبور ہو جائیں کہ اس علاقے کو ہی چھوڑ جائیں اور اسرائیل کے لئے آسان ہو جائے کہ وہ اپنے لوگوں کی وہاں پر بستیاں آباد کر سکے۔یہ کام کرنا تو اس نے ویسے بھی ہے لیکن حماس جیسی تنظیمیں خود ہی بیوقوفیاں کر کے ایسے حالات پیدا کر دیں، جو اسرائیل کو اپنے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوں۔ تو پھر اور کیا چاہیے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ خود دوحہ میں تو ان کے بچے غزہ سمیت ترکی‘ قطر اور دیگر ممالک میں زندگی کی آسودگیوں سے مستفید ہو رہے ہیں جبکہ عام غریب فلسطینی ان کا پتہ نہیں کس منصوبے کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے جواب میں اسرائیل کا غصہ دراصل انسان کی اس خصلت کا غماض ہے کہ جب وہ طاقتور ہوتا ہے تو اس طرح کی گستاخیاں برداشت نہیں کرتا۔اس کے اندر کا طاقت کا غرور اسے یہ برداشت نہیں کرنے دیتا کہ کوئی بے بس‘ کمزور اور لاچار اس کے کسی عمل کا ردعمل دے سکے۔ اس کی کسی بات کے جواب میں کوئی بات کر سکے۔ اب اسے کوئی جواب طلب کرے۔ یہی طاقتور کا رویہ ہوتا ہے چاہے وہ دو ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کا معاملہ ہو یا دو انسانوں کے درمیان یا مختلف انسانی اداروں کے درمیان۔ انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی انسانی رشتوں تک یہی المیہ ہے کہ طاقتور یہ کسی صورت برداشت نہیں کرتا کہ کوئی کمزور اس کی طاقت کو چیلنج کرنے کا کوئی زبانی یا عملی اشارہ بھی دے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل طاقتور کے اندر کے غرور و تکبر کو ظاہر کرتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو لاشکریک کو سب سے زیادہ ناپسند ہے، جو اسے بہت زیادہ پسند ہے، وہ معاف کر دینا اور درگزر سے کام لینا ہے لیکن یہ بات دنیا کے طاقتوروں کو پسند نہیں۔ بہرحال اگر آپ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو گھر سے ملک کے اجتماعی منظر نامے تک آپ کو طاقتور کے اپنے سے کمزوروں کے متعلق فیصلوں کے پیچھے یہی سوچ کارفرما نظر آئے گی، کمزور کے کسی ناپسندیدہ کام کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے، وہ بھی اسرائیل کی طرح اس سوچ کے زیر اثر ہوتے ہیں کہ کمزور نے اسے چیلنج کرنے کی جرات کیسے کی اور اب اس کو عبرت کا ایسا نشان بنا دوں کہ آئندہ اسے یا اس جیسے کسی اور کو اسے چیلنج کرنے کی جرأت نہ ہو۔ ایسا طاقتور تب تک کرتا رہتا ہے جب تک کمزور اپنے اندر اتحاد پیدا کر کے ہر طرح کی قربانی کے جذبے سے سرشار اس کے مقابلے میں کود نہ پڑیں اور یہ ثابت نہ کر دیں کہ ان کا ردعمل اس کی طاقت کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب تک اسے کمزور کی طرف سے ایسے ردعمل کا خوف نہیں ہوتا تب تک طاقتور کا ہاتھ نہیں رک سکتا۔ پاکستان میں تو انفرادی‘ خاندانی و اجتماعی معاشرتی سطح سے لے کر قومی سطح تک انسانوں کے رشتوں میں طاقتور اور کمزور کے درمیان یہی زبان فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے جبکہ مغربی یا ترقی یافتہ ملکوں میں ان کی معاشرتی اور بین لااقوامی زندگی میں فرق ہے۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں وہ بھی عموما اسی رویے کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ اسرائیل کر رہا ہے لیکن معاشرتی سطح پر انہوں نے اپنے شہریوں کی سوچ کو اس کے بالکل برعکس خطوط پر ترتیب دیا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک تمام ترقی یافتہ معاشرے اس اصول پر کاربند ہیں کہ کمزور کے حقوق کو ترجیح حاصل ہے۔جنگلات و جانوروں سے لے کر‘ زمین‘ پانی اور پہاڑوں کے انتظام تک اور ٹریفک کے انتظام سے لے کر باہمی انسانی میل جول تک ہر جگہ نظام یا روایات طاقتور کے مقابلے میں کمزور کی حمایت میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں، یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ یہی مدینہ کا اسلامی معاشرہ میں بھی تھا اور یہی آج دراصل انسانی ترقی کا بہترین ماڈل ہے۔ورنہ بصورت دیگر تو تمام راستے ترقی معکوس اور تباہی ہی طرف راہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔