مولانا ابو لکلام آزاد سے نئی نسل غالباًواقف نہیں۔جب میں نیا نیا جرنلزم کی طرف آیا تو ایک سینئر صحافی نے زبان اور بیان کی چھب سمجھانے کے لیے مجھے مولانا کی کتاب"غبار خاطر"گفٹ کی اور کہا اسے بار بار پڑھیے۔یہ شفقت تنویر مرزا صاحب تھے،ہمارے ایڈیٹر اطہر ندیم صاحب کے نظریاتی ساتھی۔جب مولانا آزاد کی تقسیم ہند پر کتاب"India Wins Freedom"پڑھی تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔تقسیم ہند پر سبھی کتابیں پڑھیں۔مولانا آزاد اور علامہ مشرقی کا اندازِنظراور نکتۂ فکر رائج الوقت نظریۂ پاکستان کے افکار سے مختلف تھا۔سی ایس ایس کی تیاری کے دوران اور پھر نظریہ پاکستان پڑھاتے وقت بات نصاب سے باہر بھی نکل جاتی۔تیکھے سوالات،خوبصورت دلائل اور تاریخ کے تضادات پر جب تعلیم یافتہ نوجوان نسل سوال در سوال کرتی تو بات دور تلک جاتی۔مال روڈ پر ایک عمارت ہے۔نظریۂ پاکستان کی ضامن اور محافظ ہے۔ایک دو بارPTVکی طرف سے وہاں جانا ہوا۔پھر گورنمنٹ کالج کے شعبہ سیاسیات کے ایک استاد ہوتے تھے۔۔ڈاکٹر سرور صاحب، میرے بھی استاد رہے۔کئی کتابوں کے مصنف تھے۔اُن سے ایک بار آٖف دی کلاس کچھ تاریخی تضادات پر بات ہوئی تو کچھ اشارات کے جواب اُن کے پاس بھی نہ تھے۔ اکیڈمک بوریت سے دامن بچا کر آگے چلتے ہیں۔مولانا آزاد نظریۂ پاکستان کے کٹر مخالف تھے۔سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔مولوی تھے مگر ماڈریٹ۔ ہندوستان کانگرس بمقابلہ مسلم لیگ سیاست میں ہمیشہ کانگرس کے ساتھ کھڑے رہے۔مولانا ماڈریٹ مولوی تھے،مونچھوں کو تائو دیتے اور برطانوی سگریٹ اور سگار کے کش لگایا کرتے ۔کسی کے مطابق آج کا دستار بند اور مدرسہ کا فارغ التحصیل مولوی انہیں دیکھتا تو کبھی قبولیت کی سند نہ دیتا۔آغا شورش لکھے ہیں کہ جب مولانا اس جہان ِ فانی سے رُخصت ہوئے تو دن چڑھے دہلی میں اُن کے گھر کے باہر دو لاکھ انسان اکٹھے ہو گئے۔ہندوستان بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر پرچم سرنگوں تھے۔دہلی میں ھُو کا عالم تھا۔یہاں تک کہ بینک بھی بند ہو گئے۔جواہر لال نہرو بڑے بے چین تھے۔بار بار ہجوم میں گھس جاتے۔لوگوں کو دیکھتے اور پھر پلٹ آتے۔ایک بار ہجوم میں گھسے تو اپنے ارد گرد سکیورٹی کو دیکھ کر ترنت بولے آپ کون ہیں؟ کیوں کھڑے ہیں میرے آگے پیچھے؟"آپ کی ٖحفاظت کے لیے"سکیورٹی نے جواب دیا۔پنڈت کہنے لگے"کیسی حفاظت"؟ موت تو اپنے وقت پر آ کر رہتی ہے۔بچا سکتے تو مولانا کو بچا لیتے۔جنازہ اٹھا۔جنازہ کی گاڑی میں وزیرِ اعظم اور صدر خود موجود تھے۔ پیچھے تینوں افواج کے چیفس تھے۔دریا گنج سے جامع مسجد تک راستہ پھولوں سے اَٹ گیا۔پنڈت جنازے کے بعد مولانا کے کمرے میں گئے۔پھر اُن کے گھر میں پھولوں کی روش کے پاس پہنچے جہاں مولانا ٹہلا کرے تھے۔ایک جگہ پھولوں کا ایک گچھا ایک پودے میں لگا دیکھا۔تو اس مخاطب ہو کر کہا"کیا مولانا کی موت کے بعد بھی مسکرائو گے"؟۔یاد رہے کہ ابو لکلام آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم تھے۔ہمارے ہاں پہلے وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل تھے اور وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ تھے۔ خواجہ احمد عباس انقلابی کہانی کار اور فلم میکر تھے،مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ وہ الطاف حسین حالی کے پوتے تھے۔مگر مجھے جب یہ خبر ہوئی کہ مشہور انڈین سٹار عامر خان۔۔مولانا ابو لکلام کی پیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں تو شدید حیرت ہوئی۔مگر عامر خان سے پہلے ذکر کرتے ہیں ناصر حسین کا جو مولانا کے نواسے تھے۔1931ء کو بھوپال میںجنم لینے والے ناصر حسین نے سترہ سال کی عمر میں فلم کی جادو نگری میں قدم رکھ دیا۔آشا پاریکھ نے ناصر حسین کی وجہ سے تمام عمر شادی نہ کی۔ناصر حسین کی ساری زندگی دلچسپ افسانوی قصوں سے بھری پڑی ہے مگر بات شروع کرتے ہیں ستر کی دھائی سے جب بمبئی کی فلم انڈسٹری پر ابھرتے ہوئے دو نام بطور لکھاری اپنی جگہ بنا رہے تھے۔سلیم اور جاوید۔یہ جوڑی کامیابی کی منازل تیزی سے طے کر رہی تھی۔یہ جذبات ،محبت اور طبقاتی تضاد کو مِکس کر کے کچھ ایسی فلمی ڈِش تیار کرتے کہ فلم سُپر ڈُپر ہو جاتی۔ناصر حسین نے سلیم اورجاوید کے ساتھ مل کر "یادوں کی بارات" بنائی1973ء میں۔یہ فلم ٹرینڈ سیٹر ثابت ہوئی۔پھر آتا ہے1988ء ۔ناصر حسین کا بیٹا منصور خان فلم کمپنی کا چارج سنبھالتا ہے۔وہ ایک کلاسک لو سٹوری بنانا چاہتا ہے۔ناصر حسین خود کہانی لکھتے ہیں۔کہانی کا نام ہوتا ہے"قیامت سے قیامت تک"۔ناصر حسین کے اس پراجیکٹ پر کوئی سیٹھ بھی رقم لگانے کو تیار نہیں ہوتا۔ناصر اور منصور نیا چہرہ تلاش کر رہے مگر نئے چہرے پر رسک بہت ہے۔ناصر حسین کی ایک بھائی ہیں۔۔طاہر حسین۔اُن کے صاحبزادے کا نام ہے عامر خان۔یہ نوجوان ناصر حسین کو اس فلم کے پراجیکٹ میں اسسٹ کر رہا ہے۔ایک دن سیٹ پر جاوید اختر تشریف لاتے ہیں۔ عامر خان کو دیکھتے ہیں اور ناصر حسین سے کہتے ہیں"اس کی مسکراہٹ بہت خوبصورت ہے،اسے کسی فلم میںچانس ضرور دیجیے گا"۔بات ناصر حسین کے لاشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔وہ اپنے بیٹے منصور سے بات کرتے ہیں۔منصور فوری طور پر مان جاتا ہے کہ پرانے ایکٹر کے ساتھ کام کرنا اسے مشکل لگ رہا تھا۔فلم بن جاتی ہے۔نئی کاسٹ،نیا میوزک ڈائریکٹر اور گانے لکھنے اور گانے والا بھی نیا۔ڈسٹری بیوٹرز نے فلم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ناصر حسین قرض میں جکڑے ہوئے تھے مگر ضدی تھے۔فلم خود ہی ریلیز کر دی۔مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور قرض بھی اتر گئے۔ناصر حسین مولانا آزاد کے نواسے اور عامر خان کے تایا تھے۔عامر خان مولانا ابو لکلام آزاد کے نواسے کا بیٹا ہے۔جب ابو لکلام آزاد چھوٹی عمر میں اپنے اجداد کے ساتھ سعودی عرب سے بھارت ہجرت کر رہے تھے تو کسے معلوم تھا کہ آزاد سیاست میںکیا کریں گے اور ناصرحسین اورعامر خان بھارت کی فلم انڈسٹری میں کتنا نام کمائیں گے۔