رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا ہے، عید قریب ہے اورچشم فلک د یکھ رہی ہے کہ انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے ہوئے دو ارب سے زائد مسلمانوں کا یہ ہجوم آج بھی بے بسی اور بے حسی کی گہری دلدل میں غوطے کھا رہا ہے۔ اغیار اس پر ایسے ہی ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور نبی مہربانﷺ کے فرمان کے مطابق ہم حب دنیا میں غرق ہیں اور موت سے خائف۔ اس امت کے آدھے سے زیادہ حکمران اپنے عوام کی گردنوں پر گناہوں کے عذاب کی طرح مسلط ہیں۔نسل درنسل بادشاہوں کی یہ نسل امت رسول سے غلاموں کا کام لے رہی ہے۔ امت کے وسائل پر پلنے والے یہ ’’قائدین‘‘ اپنی توندوں اور گردنوں کی چربی بڑھانے‘یورپ اور امریکا کے بنکوں میں دولت کے انبار لگانے کے لیے دنیاوی جاہ و جلال اور عیش عشرت کی خاطر امت کے کسی بھی گر وہ پر ٹینک چڑھا سکتے ہیں۔آگ لگا سکتے ہیں‘ میزائلوں سے ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔ یہود و ہنود کی خوشنودی کے لیے آپس میں لڑا سکتے ہیں ۔باقی امت کے حکمران صاحب حیثیت بادشاہوں‘ شہنشاہوں امیروں اور ملکوں کی چاکری پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر کسی نے چاکری سے منہ موڑ لیا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ اسے امریکا ’’بادشاہ‘‘ کی نوکری میسر آ گئی ہے جس نے اس دنیا کے امن کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ امت کے سرمائے سے ابھرنے والی یہ توندیں کیوںبڑھتی جا رہی ہیں‘ حیرت اس پر ہے کہ یہ توندیں بھرنے کا نام نہیں لے رہیں اور ایک کے بعد ایک نئی توند نئے حکمران کے نام سے آ جاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اس امت کا استحصال کر رہے ہیں اور اپنے خاندانوں کی مسلسل حکومت کو وہ جمہوریت کہتے ہیں۔عید آئی ہے تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس دو ارب ہجوم مومناں کے درمیان اہل غزہ لہو کے سیلاب میں ڈوب رہے ہیں اور انبیاء کا قاتل گروہ ٹینکوں میزائلوں اور جنگی طیاروں کے ذریعے سولہ لاکھ کی چھوٹی سی محصور آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا رہا ہے۔ غزہ کے ارد گرد آٹھ مسلم ممالک یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور باقی پچاس مسلم ملکوں کو سانپ سونگھ گیا۔اسرائیل جس کے لیے مرد درویش میاں طفیل محمدؒنے کہا تھا کہ پوری امت اگر متحد ہو کر اسرائیل کی طرف پھونک مارے تو یہ ریت کے ذروں کی طرح تحلیل ہوجائے اور اگر یہ مل اس پر تھوکیں تو یہ تھوک کے سیلاب میں ڈوب جائے ۔غزہ کی سر زمین پر معصوم بچوں کی چیخیں آسمان کا دل دہلا رہی ہیں۔ جن کا قصور صرف یہ ہے کہ اپنا وہ حق مانگتے ہیں جسے عالمی برداری نے تسلیم کر رکھا ہے۔عید آئی ہے تو کوہ ہمالیہ کے دامن میں پھیلی وادی گل پوش لہو رنگ ہوئی جاتی ہے۔ پانچ لاکھ انسانوں کا لہو پی کر بھی گائوماتا کے پجاریوں اور گاندھی کے عقیدت مندوں کے دل کو قرار نہیں آیا۔ دس ہزار سے زائد گم نام قبروں میں سوئے کشمیریوں کی مائیں اس آس پر آج بھی دہلیز سے لگی بیٹھی ہیں کہ شاید کہیں سے اس کا لخت جگر لوٹ آئے۔ ایک لاکھ سے زائد عقوبت خانوںکی دیواروں کے ساتھ بیٹھے اپنے انجام کے منتظر ہیں۔سات ہزار سے زائد عفت مآب خواتین کی حرمت بھارتی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی اور تین لاکھ سے زائد ہجرت کے سفر پر گامزن ہیں۔ وہ صرف اپنا حق مانگتے ہیں جسے عالمی طاقتوںنے تسلیم کر رکھا ہے لیکن انہیں یہ حق اس لیے نہیں مل رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ظلم کی اس بستی کے ساتھ دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت رہتی ہے۔ ادھر اراکان میں ایک معمولی اور بظاہر امن پسند گروہ کے بودھوں نے برمی مسلمانوں کو آگ میں جلا ڈالا۔ گولیوں سے بھون دیا اور معصوم بچوں کو گرم تیل میں ڈال کر صرف اس لیے سبق سکھایا کہ وہ مسلمان تھے۔ اس سانحے پر بہت کم آنکھیں اشکبار ہوئیں اور امت کے دو تین حکمران محض قرارداد پاس کر سکے۔ترکیہ اور شام غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مصر کے مسلمان ایک طویل جدوجہد کے بعد آمریت سے چھٹکارہ پاکر چھ ہزار انسانوں کی قربانی دے کر پھر لہو میں ڈوب چکے اور لہو بہانے والے وردی اتار کر حکمرانی کے حق دار بن گئے۔ شام برسوں سے لہو رنگ ہے اور عراق آگ و خون میں نہا چکا۔ افغانستان خون کی ندیاں عبور کر کے پھر لہو کے دریا میں اتر جاتا ہے اور اس لہو کے دریا میں یہاں کی قیادت مسلسل غوطے کھا رہی ہے۔ اس کے در و دیوار ااجاڑ دیے گئے،کھیت کھلیان برباد کر دیے گئے۔یہاں کی نسلیں استعمار سے نبرد آزما رہیں،اور یہ استعمار کبھی ڈاکو کبھی چور بن کر ان کے وسائل لوٹتا رہا، یہاں تک کہ اس کے ملک کو مٹی کا ڈھیر بنا گیا۔ ادھر پاکستان دہائیوں سے ایک ایسے کھیل کا حصہ بن کر رہ گیا ہے جس کے میدان میںاتر کر اسے ابھی تک کھیل کی سمجھ نہیں آئی۔ برسوں سے کراچی سے خیبر تک تباہی بربادی‘ بے امنی‘ لوٹ مار اور ان دیکھے ہاتھوں کا کام جاری ہے اور ہماری قیادت باہم دست و گریباں ہے اور دشمن اپنا کام مکمل کر رہا ہے اور چار سو لہو کی ندیاں رواں ہیں۔اس ندی میں معصوم عوام غوطے کھا رہے ہیں اور لہو کی دھار تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ایک نہ سمجھ آنے والامعمہ،ایک دلدوز سانحہ ،جس نے ہر گھر میں لڑائی شروع کر رکھی ہے۔ دکھ کے گہرے بادلوں کے اس پار پھر عید آئی ہے اور ان بادلوں سے آنسوئوں کی برسات برسنے کو بے تاب ہے۔ امت مسلمہ کی بے حسی‘ بے بسی لارچارگی پر ایک بے مایہ انسان ضمیر کا بوجھ اتارنے کے لیے محض رو ہی سکتا ہے۔ عید آئی ہے تو کروڑوں دلوں اور رندھے گلوں سے یہ بوجھ کسی طور کم تو ہونا چاہیے نا!! عید آئی ہے،تو مجھے علی گیلانی،اشرف صحرائی، عبداللہ بانگرو،اعجاز وٹالی،اشفاق مجید،مقبول علائی،شمس الحق،اشرف ڈار،غلام رسول ڈار،علی محمد ڈار،شیخ عبدالعزیز،ذبیح اللہ،غلام محمد بلہ،عبدالرشید اصلاحی جیسے ہزاروں جی دار یاد رکھنے چاہیں۔۔۔۔۔ جو اپنا آج ہمارے کل پر وار گئے۔