یہ محض ایک ایکٹوٹی ہے اپنا دل بہلانے اور کچھ اپنے لوگوں کو دلاسہ دینے کے لئے، لیکن الیکشن 6نومبر کو نہیں ہوں گے۔اگر ریاست کے سربراہ نے ایک پریم پتر کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر سے اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا ہے تو اس میں حیران ہونا چاہیے نہ پریشان۔ اگر یہ مشق کسی باہم انڈر اسٹیڈنگ یا فیس سیونگ کے لئے اپنائی گئی ہے تو پھر اسے چلا ہوا کارتوس سمجھ لیں۔ اگر آپ مرشد کے حکم پر اسے کسی جرأت کا مظاہرہ سمجھ رہے ہیں تو یہ محض غلط فہمی ہے کیونکہ پسلی اتنی مضبوط نہیں کہ وہ کہنی کی ضرب برداشت کر سکے۔ نجانے ہم صبح سے رات تک اس فکر میں کیوں ہلکان ہو رہے ہیں اور انتخابات کے انعقاد اور 60دن اور 90دن کے اندر اس کی تاریخ دینے کے اختیار پر مباحثہ کیوں کر رہے ہیںجب کہ سب کو علم ہے کچھ ہونے والا نہیں۔ اسی حوالے سے پیپلز پارٹی کے دو اہم ترین لیڈروں کی محض سسپنس اور تھرل پیدا کرنے کی مشق محض ایک سیٹ فائٹ ہے کہ کس نے کس رائونڈ میں کیا دائو لگانا ہے ۔شاید ہمارے پاس بحث و مباحثہ کے لئے کوئی سنجیدہ موضوع نہیں ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر طرف مسائل ہیںلیکن ان پر بات کرنے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لئے کہ ان پر ریٹنگ نہیں آتی ویوز اور لائیکس کی بھرمار نہیں ہوتی۔ اب ہم صدر کے خط کو لے کر بحث کر رہے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صدر مملکت آئین کا حوالہ دے رہے ہیں مگر جناب صدر آئین میں تو یہ بھی تو بڑی جلی حروف سے لکھا ہے کہ صدر کو ہر قیمت پر غیر جانبدار ہونا چاہیے یہ تو کہیں نہ لکھا کہ صدر مملکت کا منصب محض ربڑ اسٹمپ کے مانند ہو گا۔وہ اندھا دھند آرڈیننس جاری کرے گا اور بغیر سوچے سمجھے اور پڑھے ایسے ریفرنس بھیجنے کے لئے اپنا دفتر اور اختیار استعمال کرے گا جن کے پیچھے نہ ثبوت تھے، نہ دلیل،نہ منطق۔ سب نے دیکھا کہ یہ ریفرنس اوندھے منہ گر کر اپنے انجام کو پہنچے۔ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والے کی حکومت کو رخصت ہوئے ڈیڑھ سال گزرا ہے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں کی حکمرانی کے دور کے اختتام کو ابھی ایک ماہ ہی بیتا ہے اب تو قوم یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے تمام سرکردہ رہنمائوں سے پوچھے کہ آپ لوگوں نے پانچ سال حکمرانی کے مزے لوٹ کر اس قوم کو کس حالت میں پہنچا دیا ۔ اگر اس قوم کے دکھ در دکی کوئی دوا تھی تو وہ مجرب نسخہ کیوں نہیں آزمایا گیا۔ قوم اپنے ان سیاستدانوں سے جو اقتدار حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہیں کہ وہ صرف اپنی اپنی جماعت کے پلان پروگرام اور منشور کے حوالے سے یہ بتانے کی زحمت کریں کہ قوم کو اس بھنور میں پھنسا کر اب اس سے نکلنے کا ان کے پاس کیا فارمولا ہے۔ ابھی کوئی بھی براہ راست حکومت میں نہیں ۔ لیکن کچھ واپسی کے لئے ضمانتیں مانگ رہے ہیں۔ اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کچھ دکھاوے کی پنجہ آزمائی کر کے اچھے بچے اور شریر بچے کا تاثر قائم کر رہے ہیں تاکہ اس تگڑم بازی میں ان کے لئے بھی نوازشیں بر آئیں۔ پھر کچھ جیل کی کوٹھڑی میں خاموشی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ اب اگلا دائو کیا لگایا جائے کہ کسی کھڑکی سے اچھی امید کی کوئی جھلک تو نظر آئے۔ اس پر کوئی شک نہیں کہ آئین پر ہر قیمت پر عملدرآمد ہونا چاہیے لیکن اگر آئین میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کسی ٹائم لائن کا تذکرہ ہے تو آئین میں عوام کے حقوق اور اس سے متعلق حکومت کی ذمہ داری کے متعلق بھی بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔آئین میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ تمام ملکی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کس طرح کام کرنا ہے۔آئین میں لکھا ہے کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آئین میں تو سول بیورو کریسی کی سلیکشن سے لے کر تربیت کے اعلیٰ معیار ،میرٹ پر تعیناتی‘ پوری یکسوئی ،مکمل ذہانت دیانت اور رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب کے اصول پر بیورو کریسی کے پورے ڈھانچے کی استواری ، ذمہ داری ، قواعد و ضوابط ، ٹرانسفر‘ پوسٹنگ، پروموشن میں میرٹ کے اصول کو کارفرما رکھنے کے بارے میں بھی رہنمائی دی گئی ہے اور سول افسران کی حساس ذمہ داریاں کیاہیں، سب کچھ ان کی رولز بک میں لکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے پورے نظام اور عوامی مسائل کی گڑ بڑ اقربا پروری‘ کرپشن‘ سفارش اور دیگر نوازشات کی وجہ سے ہے۔ اس چلن نے ن تمام وزارتوں ‘ ڈویژنوں اور ذیلی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مرکز اور صوبوں میں تعیناتی‘ پروموشن صرف نوازشوں اور بڑوں اور طاقتور لوگوں کے اشارے پر ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبوں میں اس حوالے سے ذمہ دار وزارت اور ڈویژن صرف ڈاکخانے کا کام کرتے ہیں۔ سول سروس میں سلیکشن کا معیار گزشتہ کئی دہائیوں سے زوال پذیر ہے۔ اس لئے اہلیت صلاحیت یکسوئی مہارت ایمانداری کا قحط پیدا ہو گیا ہے اور اس نے سول انتظامی ڈھانچے کو غیر موثر ہی نہیں بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔لوگوں کے جان و مال کوتحفظ فراہم کرنے والی پولیس بالاستثنا کرپٹ ہے ۔ذمہ دار اور ایماندار آفیسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ پھر عوامی ترقی ،بہبود سے متعلقہ ادارے نااہل اور غیر ذمہ دار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بغیر رشوت کے ہو جائے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔ مجھے تو حیرانگی ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ فلاں وزیر اعظم نے اتنے کروڑ کا غبن کیا۔ اگر آپ کروڑوں اربوں روپے رشوت کمانے والوں کی فہرستیں بنا لیں تو ہر سرکاری ادارے خصوصاً عوامی ترقیاتی اداروں‘ کسٹمز انکم ٹیکس‘ بلڈنگ کنٹرول انفارمیشن، پولیس، تعلیم ،صحت، ریونیو ،غرضیکہ کوئی بھی ادارہ اٹھا کر دیکھ لیں، ان کے آفیسران کے اثاثوں کی خفیہ تحقیقات کرا لی جائے یہی صورتحال ہے۔ یہ کام بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ وزراء اور ارکان اسمبلی کی ایک طویل فہرست ہے جن کی جائیدادوں کا اندازہ کر کے آپ ششدر رہ جائیں گے آپ کو حیرانگی ہو گی یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ بجلی چوری میں خود واپڈا اور کے ای ایس سی کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں۔ یہاں پر کوئی بھی دردمند دل رکھنے والا اگر تعلیم، صحت، مہنگائی پر قابو پانے‘ ٹرانسپورٹ اور پانی سپلائی کو بہتر کرنے میں ذرا دلچسپی کا مظاہرہ کرے تو یہ طاقتور مافیاز آڑے آ جاتے ہیں۔ ہم لوگ اتنے تھکے ہوئے، چڑچڑے، بیزار اور مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں تو میرا جواب یہی ہو گا کہ ہمارے لیڈروں اور حکمرانوں کے سامنے کوئی بڑا مقصد نہیں ہے۔ صرف اپنے مفادات ہیں۔ جی ہاں ایمانداری۔ فرض شناسی اور ملک سے محبت قوموں کے لئے پٹرول کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نہ ہوں تو قومیں قومیں نہیں ہوتیں اور ہمارے سیاستدان اور حکمران یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض سوال اپنے جوابوں سے زیادہ جامع زیادہ مکمل اور زیادہ بلیغ ہوتے ہیں۔