پاکستانی سیاست میں ہونے والے واقعات اپنی نوعیت اور ترتیب کے اعتبار سے ایک دلچسپ تاریخ رکھتے ہیں ۔ سیاسی حکومت ہو یا عسکری اقتدار، صدارتی نظم حکومت ہو یا پارلیمانی جمہوریت ۔ سیاسی واقعات کے اسباب منظر پر کچھ اور ہوتے ہیں اور پس منظر پر ان کے محرکات اور مقاصد کچھ اور ۔پاکستان کی سیاست میں یہ روایت کہ ’پانی کو اتنا گدلا رکھا جائے کہ کچھ بھی واضح نہ ہو سکے ‘ ہمیشہ پختہ رہی ہے۔ حقائق تک عوام کی رسائی کے خوف نے پاکستان کی سیاسی اور اداراتی فضا کو حکمرانوں اور طاقت کے مراکز نے ہمیشہ دھندلا رکھے جانے میں ہی عافیت جانی ہے مگر پھر بھی کچھ شوق جنوں سے سرشار اہل قلم سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور واقعات کو کھوجتے ہوئے ان کے اصل محرکات اور اسباب تک پہنچنے میں کسی قدر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے اسی شوق جنوں میں تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق کوکھوج نکالا ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ’’ ہم نے جو بھلادیا ‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت اور چشم کشا کتاب پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عادل ایک معروف و مصروف صحافی ہونے کے ساتھ ایک اچھے ادیب بھی ہیں ۔ ممنون حسین خان کے عہد صدارت میں ایوان صدارت میں تفویض کردہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو بحسن کمال ادا کرتے ہوئے اردو کے فروغ میں ان کی کوششیں لائق تحسین رہی ہیں ۔پھر یہ کہ اس دوران انہوں نے سیاسی ، انتظامی اور عسکری اداروں کے درمیان تعلقات کار کی نوعیت اور طریقہ ء کار کا مشاہدہ کرتے ہوئے اقتدارکی سیاست اور اس کے مزاج کو بھرپور انداز میں سمجھا ہوا ہے۔وہ اگرچہ خود تو عملی سیاست الگ رہے تاہم ان کی سیاسی سوچ بڑی واضح رہی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے مختلف زمانوں میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کو تاریخ کے تذکروں سے ڈھونڈ کر انہیں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ سیاست میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے اسباب و محرکات کو سمجھنے کے لئے ذاتی تعصبات اور میلانات سے بلند ہو کر اس کے ہر پہلو کا تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے تب ہی سچائی آشکار ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر فاروق عادل صاحب نے ایک محقق کی حیثیت سے ان واقعات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان کی پچھتر سالہ سیاسی تاریخ کے اہم واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے اسباب اور محرکات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔پھر یہ کہ اپنے تحقیقی اسلوب کو ادب اور صحافت کے امتزاج سے سیاسی واقعات کو جس دلچسپ انداز میں انہوں نے اسے پیش کیا ہے اس سے وہ پڑھنے والے کی توجہ کو بھٹکنے نہیں دیتے۔’’ کشمیر کے وہ چار دن ‘‘ کے عنوان سے کشمیر کے الحاق سے متعلق واقعات کو موضوع بناتے ہوئے جس خوبصورت انداز سے اس کا آغاز کیا ہے وہ پڑھنے والے کی دلچسپی کو فزوں تر کردیتا ہے۔اس کا آغاز ملاحظہ ہو۔’’ دو میل کی پہاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سورج کانظارہ دیدنی ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے جب دھوپ اپنا رنگ بدل کر منظر کا حصہ بنتی ہے تو دیکھنے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت پرتھوی ناتھ وانچو پر طاری ہوئی۔ یہ نوجوان ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کا ایک اہلکار تھا جو معمول کے دورے پر یہاں پہنچا اور فطرت کی دلکشی کو دل دے بیٹھا ۔ وہ ابھی اس منظر میں کھویا ہوا ہی تھا کہ اسے خوف میں ڈوبی ہوئی ایک چنگھاڑ سنائی دی : ’’دشمن آگیا ،دشمن آگیا ‘‘ یہ ڈاک بنگلے کا ایک ملازم تھا جو خوف ، ہمدردی اور ملازمانہ ذمہ داری کی ملی جلی کیفیات میں اس کی طرف بھاگا چلا آرہا تھا ۔‘‘ اس کے بعدکشمیر میں قبائلی لشکر کی فتوحات اور الحاق کے تناظر میں ہونے والے واقعات کے ہر پہلو کو بڑی تفصیل سے موضوع بنایا ہے۔اب اس خوب صورت آغاز کے بعد پڑھنے والے کی توجہ کس طرح منتشر ہو سکتی ہے ۔ کتاب میں شامل ایک اور واقعہ کا ذکر ’’ پہلی جلاوطنی ‘‘ کے عنوان سے اسکند مرزا کے اعلان کردہ ماشل لاء کے نفاذ اور پھر اس کے بعد کی صورتحال کی حقیقت بہت ہی دلچسپ انداز اور پیرائے میں کیا ہے۔ اس کی ابتدا ہی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے کافی ہے۔ ’’ گھڑی کی سوئیوں نے ادھر دس بجنے کا اعلان کیا ادھر رات کے اندھیرے میں ایوب خان کا سرخ چہرہ چمکا ، انہوں نے صدر مملکت یعنی اسکندر مرزا کو سیلیوٹ کیا اور کہا:’’ Everything is OK Sir, Operation is complete ‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہی ماحول پر جو تنائو تھا ،چھٹ گیا اور اسکندر مرزانے خوش دلی کے ساتھ اشارہ کیا جسے دیکھتے ہی چار پانچ خدمت گار وہسکی سوڈا کے چھلکتے جام ٹرے میں سجائے نمودار ہوئے اور محفل جوان ہو گئی۔ ان ہی چسکیوں کے دوران اسکندر مرزا کے دل میں جانے کیا خیال آیا کہ وہ یکدم سنجیدہ ہوئے اور ایوب خان کا بازو پکڑ کر انھیں قریب کیا اور منہ ان کے کان کے قریب لے جا کر پوچھا کہ کیا میں صبح کو سورج دیکھ سکوں گا؟‘‘ اس آغاز کے بعد پڑھنے والا اسے پورا پڑھے بغیر کیسے رہ سکتا ہے۔ بس یہی ہنر فاروق عادل صاحب کا امتیاز ہے اور کتاب کا حسن۔ لیاقت علی خان کا روس کے بجائے امریکہ کا دورہ ہو یا کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی روداد، جسٹس منیر کا نظریہ ء ضرورت پر مبنی پاکستان کی سیاسی تاریخ کی جہت بدل دینے والا فیصلہ ہو یا اسکندر مرزا کی ایوان صدر سے رخصتی کا منظر ، شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کئے جانے کا منظر ہو یا سقوط ڈھاکہ کی ہزیمت ، جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کا واقعہ ہو یا صدر رفیق تارڑکی ایوان صدر سے رخصتی کا معاملہ ۔اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے 32 اہم واقعات کے منظر اور پس منظر کو انتہائی ذمہ داری اور دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہوئے ایک قابل قدر دستاویز مرتب کردی ہے جو نہ صرف سیاست اور صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اہم ہے بلکہ عام قارئین کی بھی بھرپور توجہ حاصل کرے گی ۔ قلم فائونڈیشن لاہور نے اس کتاب کو جس خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا ہے اس کے لئے علامہ عبدالستار عاصم صاحب کی بھی تحسین کی جانی ضروری ہے۔