گزشتہ دنوں قیام پاکستان کی 76 ویں سالگرہ تھی اور اسی روز نگراں وزیر اعظم نے اپنے عہدے کا حلف بھی لیا ۔وفاق اور صوبوں میں نگراں حکومتوں کے قیام کا مقصد آئندہ نوے روز میں نئے انتخابات کے عمل کی نگرانی اور روز مرہ حکومتی امور نمٹانا ہوتا ہے ۔لیکن اس بار قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ ملک کو درپیش گھمبیر معاشی اور سیاسی صورتحال کے باعث نگراں حکومتیں نوے روز تک محدود نہ رہ سکیں اور انتخابات نومبر کے بجائے اگلے سال فروری میں ممکن ہو سکیں۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو صوبائی انتخابات پہلے ہی التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ لہذا وفاق اور دیگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی صورت حال کے عذر کے باعث آگے جاسکتے ہیں۔ آئین کی رو سے ہر پانچ سال بعد قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد ہونا ضروری ہے مگر پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ’’ انہونی ‘‘ نہیں ۔ کچھ تاخیر سے سہی بحرحال انتخابات کو ہونا ہے اور وہ ہو ہی جائینگے اہم تر بات یہ کہ کیا انتخابات کے بعد نئی حکومت گزشتہ حکومت یا حکومتوں سے کس قدر مختلف ہوگی یا دائرے کے سفر میں گمشدہ منزل کا سراغ ہی تلاش کیا جاتا رہے گا۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ ہر نئی حکومت کا آغاز جانے والی حکومت کی نوحہ گری سے ہوتا ہے ۔ ابتدائی چند ماہ یا سال اسی طرح گزار دیئے جاتے ہیں اور پھر جب کچھ حکومت کے معاملات ،مسائل اور اہداف پر نظر ڈالنے کی فرصت ملتی ہے تو اپنی اہلیت اور کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے ، پاکستان کی سیاست میں یہ روایت تو مو جود ہی نہیں رہی کہ انتخابات میں جانے سے قبل تمام مسائل اور ان کے ممکنہ حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہوں ۔ان کے پاس پالیسیوں کے ضمن میں اس کے اطلاق کا پورا نقشہ موجود ہو اور جب انہیں اقتدار ملے تو وہ اس پر عمل کے لئے خود کو تیار پاسکیں۔ پھر ایک اور مشکل جو نئی حکومتوں کو درپیش ہوتی ہے وہ ان پر عدم استحکام کی تلوار کی مسلسل موجودگی ہے جس کی وجہ سے سیاسی حکومتوں کا بیشتر وقت سیاسی جوڑ توڑ اور اپنی حکومت کی بقا کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔جس کا نتیجہ پہلے میں موجود مسائل مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں اور عوامی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے رہتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ، معاشی بحران اور انتظامی مشکلات اپنی جگہ اہم ہیں اور ان پر قابو پانا ہر سیاسی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے تاہم بعض دیگر اہم قومی مسائل جن کی نوعیت اگرچہ سماجی ہے مگر ان کے اثرات ملک کی معیشت ،معاشرت اور سیاست سب پر گہری نوعیت کے ہیں ان میں سر فہرست ملک کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے ۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کی بحالی کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں بڑھتی ہوئی آبادی ،کرپشن ،اور غلط ترجیحات کی وجہ سے ناکام ہی رہتی ہیں بالخصوص آبادی میں بے تحاشہ اضافہ،اس کا بے ہنگم پھیلائو اور غیر منظم بہائو معیشت کی بحالی کے عمل کو نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتا۔ 2023ء میں کی جانے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے ۔ ( اس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی آبادی شامل نہیںہے۔) جب کہ 2017 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق یہ 20 کروڑ 77 لاکھ تھی۔آبادی میں اضافہ کی شرح 2.55 فیصدسالانہ رہی جو کہ خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔بھارت جس کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اس کی آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح 0.81 , بنگلہ دیش میں 1.03 , سری لنکا میں 0.11 , نیپال میں 1.14 اور بھوٹان میں یہ شرح 0.64 فیصد سالانہ رہی۔پاکستان اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے ۔مگر آبادی میں اضافہ کی شرح دیگر چار بڑے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔بھارت جو آبادی کے اعتبار سے اس وقت سب سے بڑا ملک ہے اس کی آبادی میں شرح اضافہ 0.81فیصد، چین میں منفی 0.02 فیصد ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 0.50 فیصد اور انڈونیشیا میں 0.74 فیصدسالانہ ہے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافہ کی اس شرح پر اگر قابو نہیں پایا گیا تو آئندہ دس سال میں میں پاکستان کی آبادی انڈونیشیا کی متوقع آبادی 29 کروڑ 17 لاکھ کے مقابلے میں 31 کروڑ ہو جائیگی اور اس طرح عالمی آبادی کے ٹیبل پر ہم ایک درجہ مزید اوپر چلے جائینگے ۔ صورتحال کا تشویشناک پہلو پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔ جس کی شرح افزائش گزشتہ سال 0.29رہی۔قومی پیداوار اور آبادی میں اضافہ کی شرح میں اس تفاوت کے ساتھ معاشی اور سماجی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکے گا۔بیشتر معاشی اور سماجی مسائل کی بنیاد آبادی کے بے ہنگم اضافہ اور پھیلائو ہے ۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی قومی وسائل پر ایک ایسا بوجھ ہے جس کی شدت کو اگر اب بھی سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پھر خراب ہوتی صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ پانی کی کمیابی ، غذائی اجناس کی قلت، صحت و تعلیم کی ناکافی سہولیات ، کروڑوں بچوں کی تعلیمی اداروں سے دوری، بے روزگاری ، غربت ، منشیات کے استعمال میں اضافہ، جرائم کی بڑھتی ہوئی خوفناک شرح اور ماحولیاتی مسائل بڑھتی ہوئی آبادی اور اس پر عدم توجہی کا نتیجہ ہیں۔معیشت کے سدھار کی ساری کوششوں کی ابتدا آبادی کو اپنے وسائل کے مطابق کئے جانے سے ہونی چاہئے ۔جب تک آبادی کے جن کو قابو نہیں کیا جائے گا بہتری کی سب کوششیں رائیگاں ہی رہیں گی۔انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت قائم ہو اس کے پیش نظر ترجیح اول یہ ہی ایک مسئلہ ہونا چاہئے ۔اس پر اگر بھرپور توجہ دینے میں اگر اگلی حکومت کامیاب ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ ترقی کی سمت درست قدم اٹھالیا گیا ہے ۔اس ضمن میں دیگر اداروں بالخصوص سماجی اور مذہبی اداروں کو بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔