جب عثمان ڈار ،علی زیدی اور عمران اسماعیل جیسے لوگ کہتے ہیں ’’کہ یہ نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘‘ تو حیرت نہیں ہوتی سیاست پڑھاتے پڑھاتے ‘ لکھتے لکھتے ارسطو سے میکائولی تک اور ہابز سے جدید مفکرین تک ایک بات ظاہر نہیں تو باطن میں ضرور زیر زمین سفر کرتی رہتی ہے۔سیاست میں کوئی بھی کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتا ہے۔کچھ بھی کہہ سکتا ہے میرا بندہ تیرا بندہ بن سکتا ہے۔ اللہ کا بندہ بنے نہ بنے۔بے نظیر یاد آ گئیں، بی بی نے دسمبر 1993ء میں جب فاروق بھائی کو ملک کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا تو ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کی شق 58-2-Bمشہور زمانہ تلوار تھی ۔اس نے کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو کسی بھی وقت کسی بھی الزام کی بنیاد پر گھر بھیج سکتے تھے ا۔کثر لکھتا رہاکہ جب تک یہ ترمیم 1973ء کے آئین میں موجود ہے، فوج براہ راست کبھی مداخلت نہیں کرے گی کیوں؟ ۔ انہیں کیا ضرورت ہے کہ فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلیں ۔مسلم لیگ اور غلام اسحق خان بے نظیر کی حکومت 1988ء سے راضی نہیں تھے۔ پہلے تو سلامی کے طور پر بے نظیر کو صاحبزادہ یعقوب اور وی اے جعفری تھما دیے کہ سرخ لائن قومی مفاد کی یہ دونوں طے کریں گے باقی کسر بڑے دونوں نے پوری کر دی اور 6اگست 1990ء کو بے نظیر کو حکومت سے فارغ کر دیا گیا۔ مجھے یاد ہے جس دن بے نظیر کی حکومت برطرف ہوئی اس دن ایک انگریزی روزنامے میں فرنٹ پیج سٹوری تھی بے نظیر کی حکومت کی فراغت کی۔ نہیں پتہ تھاتو صرف بی بی کو۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ فاروق لغاری نے بی بی کی حکومت 5نومبر 1996ء کے دن برخواست کی مگر ذرا پیچھے چلتے ہیں فلم کو ری وائنڈ کر کے دسمبر 1993ء کے ایک دن کی بات کرتے ہیں۔محترمہ نے جب فاروق لغاری عرف فاروق بھائی کو صدر پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تو مقابلہ غلام اسحق خان اور وسیم سجاد کے درمیان تھا۔نواز شریف کے امیدوار مشہور قانون دان وسیم سجاد تھے۔محترمہ خود چل کر غلام اسحق خان کے گھر گئیں۔انہیں قائل کیا کہ اگر یہ لڑائی تین امیدواروں کے مابین ہوئی تو بات بگڑ سکتی ہے۔ محترمہ کے کہنے پر غلام اسحق خاں دست بردار ہو گئے صدر بننے کی دوڑ سے۔ محترمہ بہت تنگ تھیں۔58-2-Bسے ایک ایک مرتبہ بی بی اور بابو دونوں اس کی تیز دھار سے گھائل ہو چکے تھے محترمہ نے اپنے تحفظ کے لئے فاروق لغاری کو، اپنے سب سے بھروسہ مند ساتھی کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا۔ جب ایک صحافی نے محترمہ سے استفسار کیا کہ فاروق لغاری ہی کیوں؟ بی بی نے کہا۔He is my manوہ میرا آدمی ہے مگر سیاست میں وقت ثابت کرتا ہے کہ کوئی کسی کا آدمی نہیں ہوتا۔ سب بندے حالات اور مفاد کے تحت فیصلے کرتے ہیں چند دن پہلے اسلام آباد کے ایک باخبر پنڈت کہہ رہے تھے کہ موجودہ وزیر اعظم اب فیصلہ سازوں کی پہلی چوائس نہیں رہے۔ میں نے کہا ’’اگر ایسا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں‘‘ اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔1996ء میں صرف تین سال بعد جب فاروق لغاری نے جنہیں بی بی فاروق بھائی کہتی تھیں نے بی بی کی حکومت فارغ کی تو بے نظیر نے پرہجوم پریس کانفرنس میں حضرت علیؓ کا جملہ دھرایا ، میں حضرت علی ؓکا فرمان بھول گئی تھی کہ’’ جس پہ احسان کرو اس کے شر سے ڈرو‘‘محترمہ کی حکومت 1996ء میں برطرف ہونے سے دو دن پہلے ڈان کے ایک قد آور ایڈیٹر وزیر اعظم ہائوس میں بی بی سے ملنے گئے۔اسلام آباد کے ایک نوجوان صحافی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے نوجوان صحافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بی بی سے کہا ’’اس لڑکے کے پاس ایک خبر ہے‘‘ بی بی نے ینگ جرنلسٹ سے سوالیہ انداز میں پوچھا‘‘ کیا خبر ہے؟ صحافی نے کہا ’’فاروق لغاری آپ کی حکومت کو ختم کرنے والے ہیں‘‘ بی بی نے کہا ’’فاروق ایسا نہیں کر سکتے‘‘ فاروق لغاری بی بی سے کہا کرتے تھے میں بلوچ ہوں اور بلوچ اپنی بہن کے ساتھ کبھی دھوکہ نہیں کرتے۔ مگر فاروق ایسا کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اگلے وزیر اعظم او رکابینہ کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔5نومبر 1996ء کا دن تھا امریکہ میں صدر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ ہو رہی تھی۔ محترمہ کی رخصتی کی خبر نے سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا۔ کابینہ پہلے ہی طے تھی۔ ملک معراج وزیر اور اعظم، ارشاد حقانی ،نجم سیٹھی ،جاوید جبار اور فاروق بھائی کے بیورو کریسی دور کے ہم عصر دوست۔شاہدجاوید برکی ‘ شاہد حامد‘ حفیظ پاشا ‘ فخرو بھائی اور ہم نوا۔ ان میں سارے پرانے احباب نہیں تھے کچھ نئے بھی تھے۔ارشاد حقانی صاحب کے بی بی کے خلاف کالم چارج شیٹ تھے۔ آصف زرداری کو لاہور گورنر ہائوس سے گرفتار کیا گیا۔ ان کی طویل جیل یاترا کی ابتدا تھی، محترمہ کے خلاف چارج شیٹ میں ماورائے عدالت قتل(مرتضیٰ بھٹو) کرپشن اور معاشی معاملات نمایاں تھے۔ نگران دور میں شاہد جاوید برکی جو وزیر اعظم کے معاون خصوصی تھے، وہ بار بار ذکر کر رہے تھےآئی پیز پیز کے ان معاہدوں کامحترمہ اور زرداری صاحب نے غیر ملکی کمپنیوں سے کئے تھے۔ آئی پی پیز کے معاملے کی نزاکت اور حساسیت پر اسلام آباد میں ایک ہائی پاور اجلاس ہو رہا ہے ۔منسٹر آف واٹر اینڈ پاور عبداللہ میمن بھی ہیں اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بھی، شاہد جاوید برکی بھی اور وزیر داخلہ عمر آفریدی بھی۔ سوال درپیش یہ ہے کہ بی بی نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کئے ہیں بجلی پیدا کرنے کے لئے، وہ انتہائی عجیب و غریب شرائط پر مبنی ہیں۔ اس وقت اجلاس میں موجود ایک صاحب بتانے لگے کہ معاملہ اتنا حساس تھا اور تکلیف دہ بھی کہ عبداللہ میمن جو منسٹر تھے سسکیاں لے لے کر رونے لگے کہ یہ جو معاہدے ہیں پاکستان کو تباہ کر دیں گے۔ فاروق لغاری بار بار شاہد جاوید برکی اور میمن صاحب سے کہتے کہ کیا ہم ان معاہدوں کو کینسل نہیں کر سکتے؟ غیر ملکی کمپنیوں کے جو حقوق ہوتے ہیں عالمی قوانین کے تحت ان کی وجہ سے یہ اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ فاروق بھائی نے بی بی کے ساتھ احسان فراموشی کی۔بی بی کی حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ جو درد ناک اور سنگدل معاہدے کئے وہ کیا تھے؟ آج پلٹ کر دیکھیں تو سوچنا پڑتا ہے۔