ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے (ن) لیگ کے رہنما سردار اویس خان لغاری کو وزارت ریلوے کا منصب تفویض ہوا تھا اور ان کی تعیناتی پر وسیب میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا، مگر اب اُن سے ریلوے کی وزارت واپس لے کر توانائی کی وزارت دید ی گئی ہے، جس پر وسیب کے لوگوں کو مایوسی ہوئی تاہم محکمہ ریلوے کو ریلوے کے مسائل پر توجہ کی ضرورت ہے کہ 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بند کی گئی بہت سی ٹرینیں آج تک بحال نہیں کی گئیں، اگرچند ایک نئی ٹرینیں چلی بھی ہیں تو وہ لاہور یا اسلام آباد کے مسافروں کی سہولت کے لیے تھیں، باقی پورے ملک کے مسافروں کے لیے ریلوے کی سہولتوں کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے، ریلوے ملازمین کی نا اہلی کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں، رواں سال چھ سے زائد گاڑیاں پٹڑیوں سے اُتر گئیں، اس وقت ریلوے کو بوگیوں کی کمی کابھی سامنا ہے، سینکڑوں بوگیاں ناکارہ کھڑی ہیں ، فنڈز کی کمی کا بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مغل پورہ ورکشاپ ریلوے میں مرمت کا کام ہوسکتا ہے۔ سابقہ ادوار میں محکمہ ریلوے سرائیکی وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتا آ رہا ہے ، ڈیرہ غازی خان سردار اویس خان لغاری کا اپنا گھر ہے، یہ بہت بڑا ریجن ہے، یہاں انگریز دور سے ریلوے لائن موجود ہے ، اس ٹریک پر صرف ایک ٹرین خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور تک چلتی تھی اور کشمور سے گولڑہ شریف تک وسیب کے لاکھوں مسافر اس سے استفادہ کرتے تھے مگر محکمہ ریلوے نے نہ صرف ٹرین بند کر دی بلکہ ظلم یہ کیا کہ ڈیرہ غازی خان اسٹیشن کو بھی بند کر دیا اور وہاں سے سٹاف کو دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا۔محکمہ ریلوے کو سب سے پہلے ڈیرہ غازی خان اسٹیشن اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بحال کرنا چاہئے کہ وسیب سے سخت نا انصافی ہوئی ہے، اسی ٹریک پر مزید ٹرینیں بھی چلانے کی ضرورت ہے۔ وسیب پاکستان کے عین درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس خطے کو جو بھی سہولت میسر آئے اس سے دوسرے خطوں کے لوگ بھی باآسانی استفادہ کر سکتے ہیں ، کراچی اور پشاور کے درمیان ملتان ریلوے کا بہت بڑامرکز ہے، ایک تجویز یہ بھی آئی تھی کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر کو تبدیل کر کے ملتان لایا جائے اور کوئٹہ ‘ سکھر ‘ پشاور‘ پنڈی اور لاہور ڈویژنوں کو زیادہ اختیارات دے کر ہیڈ کوارٹر ز کی مرکزیت کو کم کیا جائے ، اس سے جہاں انتظامی معاملات بہترہوں گے وہاں مالی بد انتظامی کا بھی خاتمہ ہوگا۔ ریلوے کو قومی خزانے سے سبسڈی دی جاتی ہے لہٰذا اس کا فائدہ ملک کے تمام علاقوں کو ملنا چاہئے ، سرائیکی علاقے ماڑی انڈس ، ٹانک ، کالا باغ ، بنوں اور لکی مروت ٹرین بھی آج تک بند ہے ، دفاعی نکتہ نظر سے فیروزہ اور خیرپور ٹامیوالی اسٹیشنوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، منظوری کے باوجود ان کو بھی اپ گریڈ نہیں کیا گیا اور سمہ سٹہ بہاولنگر سیکشن کو بھی ختم کر کر دیا گیا ، ۔ اگر میں اپنے شہر کی بات کروں خانپور ریلوے کا جنکشن بنایا گیا اور خانپور میں عالیشان ریلوے کالونی آفیسر کلب اور افسران کیلئے رہائش گاہیں تعمیر ہوئیں ، کہا گیا کہ خانپور کو ریلوے کا حب بنائیں گے ، اس مقصد کیلئے خانپور میں وسیع اراضی حاصل کی گئی۔ خانپور سے چاچڑاں تک ریلوے لائن موجود تھی، دوسری طرف کوٹ مٹھن تک ریلوے لائن موجود ہے ، منصوبہ تھا کہ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان دریائے سندھ پر ریلوے پل تعمیر کر کے چاچڑاں اور کوٹ مٹھن ریلوے لائن کو ایک دوسرے ملا دیا جائے ، اس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک طرف براستہ جیکب آباد ، کوئٹہ تک ، دوسری طرف براستہ ڈیرہ غازی خان ، کندیاں ، پنڈی و پشاور تک وسیب کے لوگ ایک دوسرے سے لنک اپ ہو جانے تھے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ مجوزہ سی پیک منصوبہ ایم ایل ون میں کہا گیا تھا کہ چاچڑاں ریلوے لائن دوبارہ بنائی جائے گی ، چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بھی بنے گا اور انگریز دور کے منصوبے کے تحت خانپور کو ریلوے کا حب بنایا جائے گا مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔سرائیکی وسیب سے چلنے والی ٹرینیں خان پور سے راولپنڈی تک جانے والی روہی ایکسپریس ، ملتان سے کراچی جانے والی شاہ رکن عالم ایکسپریس، خان پور سے روہڑی جانے والی روہڑی ایکسپریس، ملتان سے پنڈی جانے والی بلال ایکسپریس، ملتان سے پشاور ایکسپریس براستہ میانوالی اٹک، ملتان سے براستہ ڈیرہ غازی خان کوئٹہ جانے والی چلتن ایکسپریس اور دیگر ٹرینیں بند ہیں۔ ہرسال پاکستان ریلوے آزادی ٹرین کے نام سے پشاور سے کراچی تک گاڑی چلاتی ہے جس میں سندھی، بلوچی ،پنجابی ، گلگتی ، کشمیری اور پشتو ثقافت کو نمائندگی دی جاتی ہے مگر پاکستان کی قدیم سرائیکی ثقافت کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اس پر وسیب کے لوگ ہر سال احتجاج کرتے ہیں اور آزادی ٹرین جونہی ملتان ، لودھراں ، بہاولپور ، سمہ سٹہ ، خانپور اوررحیم یارخان سے گزرتی ہے۔ وسیب کے لوگوں کا مطالبہ یہ ہے کہ آزادی ٹرین میں سرائیکی ثقافت کو بھی شامل کیا جائے ، دیکھا جائے تو یہ مطالبہ وسیب کے لوگوں کی حب الوطنی کا غماز ہے کہ وہ یوم آزادی کی خوشیوں میں خود کو شریک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن متعصب بیورو کریسی ہر سال ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی آ رہی ہے ۔ سرائیکی ثقافتی مسئلہ اور سرائیکی شناخت کا مسئلہ اس لئے بھی حساس حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ محکمہ ریلوے کے ساتھ شہبازشریف کی پوری حکومت کا اب یہ امتحان ہے کہ وہ ملک سے بیروزگاری کے خاتمے کیلئے محروم اور پسماندہ علاقوں کو کس طرح ساتھ لے کر چلتے ہیں یا نہیں؟ ٭٭٭٭٭