ایک صحت مند انسانی سماج کی شناخت مکالمہ (DIALOGUE ) کی موجودگی اس کی وسعت اور اس کے تسلسل سے ہی ہو تی ہے ۔سیاسی اقدار ہوں یا سماجی رابطے،مذہبی عقائد ہوں یا پھر تعلیمی اسلوب۔ مکالمہ سے ہی ان کا سمجھنا اور سمجھانا اور ان کی نمو مثبت اور تعمیری نہج پر ممکن ہے۔کوئی بھی نظریہ خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو جبر اور قہر کی بنیاد پر تا دیر اذہان انسانی کو مائل اور مرعوب نہیں کر سکتا ۔ وہی نظریات و عقائد قلب و نظر میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں جب انہیں گفت و شنید اور دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے اور انہیں ول سے قبول کئے جانے کی آزادی میسرہو ۔ مکالمہ کے ذریعہ نئے خیالات ، نظریات اور افکار کے نئے سوتے پھوٹتے ہیں۔ مکالمہ کے بغیر سماج ایک جوہڑ کے مانند ہے جس کا ٹھرا ہوا پانی بدبو دار اور زندگی سے محروم ہوتا ہے اور جس سماج میں مکالمہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ مروج ہو وہ ایک بہتے ہوئے دریا کی مانند ہوتا ہے جس میں ہر دم تازہ پانی کی روانی اسے بھرپور زندگی کی علامت بنادیتا ہے۔آزادی ء اظہار رائے ، جسے آج کے معروف جمہوری سیاسی سماج کے قیام کے لئے خشت اول کی حیثیت حاصل ہے ، مکالمہ کے بغیر ممکن نہیں ۔سماج کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کے امکانات اس مکالمہ سے ہی جڑے ہوے ہیں یہ مکالمہ ، افراد کے مابین ہو یا افراد کا اداروں کے درمیان یا پھر اداروں کا اداروں کے معاملات سلجھانے کے لئے ہو ، نظریات کی تفہیم اور ابلاغ کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ مکالمہ تشدد ، جبر، اور شر کی بیخ کنی کرتے ہوئے سماج میں تحمل ، برداشت،معقولیت اور رواداری کے فروغ کا ضامن بن جاتاہے۔بد قسمتی سے جب ہم اپنے سماج کی طرف دیکھتے ہیں تو صورت حال اس کے بالکل متضاد نظر آتی ہے ۔مکالمہ کی صحت مند روایت پاکستانی سماج میں کمزور ہو چکی ہے۔جس کے نتائج سماج میں موجود فکری انتشار ،،تشدد اور تصادم کے بڑھتے ہوئے رجحانات، جبر اور دھونس کے کھلے مظاہروں کی صورت سامنے آچکے ہیں ۔سیاست اور مذہبی معاملات میں جہاں مکالمہ کی روایت کو زیادہ مستحکم ہونا چاہیئے تھا ،وہاں اس کی غیر موجودگی سب سے زیادہ ہے۔مذہبی شدت پسندی نے دینی نظریات کے مقاصد اور اس کے تقاضوں کو ذہنوں سے بالکل اوجھل کردیا ہے مختلف فقہاء کی تعلیمات اور اسلوب جنہیں تفہیم دین کا باعث ہونا چاہیئے تھا بد قسمتی سے ان کے پیروکاروں نے اسے بد ترین ا فتراق کا ذریعہ بنا دیا۔مناظروں اور مباحثوں کے بجائے دینی معاملات کی تفہیم اور تسہیل کے لئے اگر مکالمہ کو اختیار کئے جانے کی روایت کو پنپنے دیا جاتا تو مسلمانوں کے موجودہ فکری انتشار اور بگاڑ سے کسی قدر بچا جاسکتا تھا ۔مگر وائے ناکامی ! متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا مکالمہ سے گریز کی یہ روش پاکستان کی سیاست میں میں بھی جڑ پکڑ چکی ہے۔آج جن مشکل حالات کی گرداب میں ریاست گھری ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ سیاسی قیادت کے مابین گفتگو اور مکالمہ کا فقدان ہے جن مسائل اور معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل کیا جانا چاہیئے انہیں سڑکوں پر طاقت کے مظاہروں سے مذید پیچیدہ اور مشکل بنادیا گیا ہے ذاتی فتح، ضد ،انا اور تحقیر باہمی پر مبنی رویوں نے پاکستانی سیاست کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے بیانیے سے دو قدم پیچھے ہٹے اور مستقبل کی صورت گری کے لئے مکالمہ کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی تدبیر کو اختیارکر ے۔ ذکر دو کتابوں کا افکار تازہ کی حامل ڈاکٹر طاہر مسعود کی دو کتابیں انسان اور سماج اور کچھ خدا کے بارے میں گزشتہ دنوں زیر مطالعہ رہیں ۔ڈاکٹر صاحب کی علمی شخصیت تدریس و صحافت کے شعبہ جات میں ایک نمایاں مقام کی حامل رہی ہے ۔ایک اچھے استاد کی خوبیوں سے مزین ان کی شخصیت تعلیم و تربیت کے لئے ہمہ وقت مستعد اور بے چین نظر آتی ہے ۔ ان کی یہ دونوں کتب اسی جذبہء شوق کی ترجمان ہیں ۔پاکستان سے ان کی محبت ،نوجوانوں کی صلاحیتوں پر ان کا اعتماد درجہ کمال پر ہے۔وہ موجودہ حالات پر دل گرفتہ تو ضرور ہیں مگر مایوس ہر گز نہیں۔ان کی کتاب انسان اور سماج پاکستان کے اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔اپنی اس تصنیف کا تعارف کراتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں ۔’’ یہ کتاب میرے درد دل نے لکھوائی ہے جو اس مملکت عزیز کے لئے میں اپنے اند رکھتا ہوں۔اور ایک ہی خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہوں کہ کب میرے لوگوں کو اور اس سماج کو انصاف اور عدل ملے گا،ظلم کی شام کب ڈوبے گی اور کب نجات دیدہ و دل کی گھڑی آئے گی۔‘‘اخلاص دل کی یہ پکار مجھے یقین ہے ضرور سنی جائے گی ۔یہ کتاب موضوعات کے اعتبار سے دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ انسان کے کچھ فکری موضوعات پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ پاکستانی سماج کی مجموعی کیفیات کے تجزیے اور مستقبل کے امکانات لئے ہو ئے ہے۔پہلے حصے میں جن موضوعات کو شامل رکھا گیا ہے ا ن میں سے کچھ یہ ہیں : انسان اور اس کی روح ،آدمی کی تنہائی، انسان اور تقدیر ، محبت اور نفرت ، مذہب اور اخلاق اور عبادت وریاضت۔ دوسرے حصے میں ’’ یہ ہے پاکستانی سماج ، اندھیرے میں روشنی ، انقلاب یا تبدیلی ، حکمرانوں کے لچھن ، قوم نہیں سماج‘‘ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی دوسری کتاب کچھ خدا کے بارے میں ایک چونکا دینے والے موضوع پر ہے ۔ اس مختصر اور جامع کتاب میں انہوں نے خدا کو سمجھنے کا ایک نیا اسلوب کمال جرأت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب جن عنوانات پر مشتمل ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں : خدا اور ہم، خدا کی دلیل، انسان اور خدا، خدا کی ضرورت، خدا کی تاریخ ،خدا کا غضب، قوانین فطرت، دعا ، صبر و شکر اور تقدیر و تدبیر وغیرہ۔دونوں کتابیں قلم فائونڈیشن لاہور سے شا ئع ہوئی ہیں ۔جنھیں علامہ عبدالستار عاصم نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔