سرما کی آمد ہے ۔ پنجاب کے شہروں میں دھند اور اسموگ کا موسم شروع ہونے والا ہے ۔دو سے تین ماہ موسمی بگاڑ کی یہ کیفیت رہے گی اور پھر نوید بہار کے ساتھ موسم خوشگوار ا ور اجلا ہو جائے گا لیکن پاکستان کا سیاسی موسم بدستور دھند کی لپیٹ میں ہے ۔کچھ واضح نہیں ہے۔ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ الیکشن جو جنوری میں ہونا ہیں ۔ اس پر غیر یقینی کے سائے موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن جو الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے اس نے ابھی تک اس کی تاریخ ہی نہیں دی بس ایک مبہم سا اعلان کردیا ہے کہ الیکشن جنوری کے آخر ی ہفتہ میں ہونگے ۔سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مزاج کو سمجھنے اور اور اس کے مطابق اپنا انتخابی بیانیہ بنانے کے مرحلے میں ہیں۔ کون مقبول ہے اور کسے شرف قبولیت ملتا ہے ۔سب ابھی پردہ ء اخفا میں ہے۔ مہنگائی ، سیاسی انتشار اور داخلی سلامتی کے خطرات جیسے مسائل موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے ہوئے ہیں ۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس عوام کی مشکلات کا مداوا کرنے کے لئے کوئی پروگرام ، کوئی لائحہ عمل واضح نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے الیکشن مہم میں عوام کا سامنا کرنے کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت تیار نہیں ہے۔ کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت ہے تو کوئی جنوری میں برفباری کے اندیشوں میں گرفتار ہے ۔کوئی مسلسل مقدمات بھگت رہا ہے تو کسی کو اپنی ضمانت کی فکر ہے۔ ہر کوئی کسی انہونی کے انتظار میں ہے ۔ نگراں حکومت جس کا واحد ہدف الیکشن کا انعقاد ہونا چاہیئے وہ الیکشن کے سوا ہر معاملہ پر فعال اور مستعد ہے ۔معاشی اور انتظامی سطح پر اہم فیصلے کئے جارہے ہیں۔ ایسے معاملات ا ٹھائے جا رہے ہیں جو طویل منصوبہ بندی اور دور رس نتائج کے حامل ہیں ۔ غیر قانونی تارکین وطن کے انخلاء کا معاملہ اگرچہ اہم ہے مگر یہ گزشتہ چالیس بیالیس سال کا معاملہ ہے اس میں بڑی پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں ،داخلی اور خارجی پالیسیاں اس سے متاثر ہونگی۔اسے آئندہ حکومت کے لئے چھوڑدینا چاہیئے تھا ۔ الیکشن کے موقع پر یہ آواز بھی بلند ہوئی ہے کہ پہلے معیشت کی درستی پر توجہ دی جائے ۔اس سے پہلے کبھی انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ بھی سیاست دانوں کی جانب سے ہی بلند ہوا تھااور پھر احتساب تو کیا ہونا تھا انتخابات آٹھ سال تک ٹلتے رہے۔ بلا شبہ معیشت اس وقت گہری توجہ کی متقاضی ہے تاہم معیشت کی بہتری اور استحکام کے لئے سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے ۔ایک ایسی حکومت جو عوام کی منتخب ہو، پارلیمنٹ جس کی پشت پناہ ہو اور جس کے پاس حکمرانی میں تسلسل کی یقین دہانی بھی ہو ، معاشی مسائل کے حل کے لئے دور رس پالیسوں کا اطلاق کرتے ہوئے بہتر نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ نگراں حکومت کو خواہ کتنے ہی اختیارات تفویض کر دئیے جائیں اس کی حیثیت ایک منتخب حکومت جیسی نہیں ہو سکتی۔اس کے لئے ایک منتخب حکومت کو ہی اس بات کا موقع ملنا چاہیئے کہ وہ ملک کی معیشت سے متعلق اہم فیصلے کر ے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام مطلوب ہے ،جیسا کہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے، تو الیکشن سے قبل تمام ہی سیاسی جماعتوں کو کچھ نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر ہمیشہ کی طرح ہار کو تسلیم نہ کرنے کی روایت سے سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا او ر معیشت کی حالت بدستور دگرگوں ہی رہے گی۔ جن نکات پر اتفاق رائے ہونا چاہیئے ان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے : انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا، آئندہ حکومت کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کی یقین دہانی، معیشت سے متعلق منصوبوں میں تسلسل ، پارلیمنٹ کی بالادستی اور انتقامی سیاست سے گریز جیسے معاملات شامل ہونے چاہیئں۔اس کے ساتھ ہی اس با ت پر بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو متفق ہونے اور اس پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی سیاسی حکومت کو غیر سیاسی طریقوں سے ہٹانے کے لئے کسی غیر سیاسی ادارے کی مدد کے خواہاں نہیں ہونگے۔ وزیر اعظم کے مجوزہ گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کو ایک ایسا مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنا ضروری ہو گیا ہے جس میں ہر ادارے کا کردار آئین کے مطابق ادا کئے جانے کا عزم اور ارادے کی تجدید شامل ہو ۔ سیاسی ادارے تب ہی مستحکم ہونگے جب انہیں آزادانہ فعال ہونے کا موقع ملے اور ملتا رہے۔سیاسی اداروں کے استحکام کے لئے جس قدر سیاست دان ذمہ دار ہیں بعینہہ ریاستی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں اپنی خواہشات اور مرضی کو مقدم نہ بنائیں۔ ریاستی اداروں کو اس تاثر کو ختم ( یا کم ) کرنے کے لئے واضح اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ان اداروں کو آئینی حدود میں اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ذاتی پسند اور نا پسند سے بالا تر ہو کر ریاستی اداروں کو سیاسی عمل عوامی رائے کے سپرد کرنا ہی عین دانشمندی اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قبولیت کو مقبولیت پر ترجیح دینے کی روش کو اب بدل جانا چاہیئے۔ جمہوری سیاسی نظام میں عوامی مقبولیت ہی حکمرانی کی سند ہوتی ہے ۔ اس کا احترام اور التزام اب ضروری ہو چکا ہے ۔ ریاست کی ساکھ سیاسی اداروں کے استحکام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معا شی استحکام سے ہی قائم ہوتی ہے ۔ پاکستان میں ابتدا سے ہی ریاستی اداروں نے سیاسی اداروں پر اعتماد کرنے میں تذبذب کا اظہار کیا ہے۔خارجہ پالیسی ہو یا داخلی سلامتی کے معاملات ، معاشی منصوبہ بندی ہو یا انتظامی تبدیلیاں اسٹیبلشمنٹ پس پردہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے۔ پچھہتر سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ سیاسی حکومتوں پر اعتماد کرنے سے گریزاں ہے۔یہ بات اگرچہ تواتر سے کہی تو جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے الگ ہے مگر سچائی یہ ہے کہ اس پر یقین کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔سیاست پر چھائی ہوئی یہی دھند ہے جو سارے مناظر کو گدلا کئے رہتی ہے۔اس دھند کو اب چھٹ جانا چاہیئے ۔ پاکستان کے راستے کی اس دھند کو صاف کئے بغیر نہ تو ریاست کی بقا ممکن ہے اور نہ اس کی معاشی ترقی۔ ریاست کے امور میں شریک تمام ذمہ داروں کو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ مستقبل کے مورخ کی ان پر گہری نظر ہے !!!