کسی ریاست کا جغرافیہ اس کا اثاثہ ہوتا ہے اور اچھی حکمرانی اس کی ترقی اور تابناک مستقبل کی ضمانت اور تاریخ پر افتخار زاد راہ ۔ ریاستیں ان ہی لوازمات کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور اقوام عالم میں اپنا اعتبار بنا پاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ داخلی انتشار سے محفوظ ہوں، معاشی طور پر آزاد اورسیاسی پختگی (POLITICAL MATURITY ) کی حامل ہوں۔مگر بد قسمتی سے اہل پاکستان کے پاس اس نوعیت کا اثاثہ کم ہی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس لائق نہیں کہ اس پر افتخار کیا جاسکے۔جغرافیائی تنوع کی حامل ریاست جسے ہر لحاظ سے اس کا اثاثہ ہونا چاہیئے تھا وہ حکمرانی کے پے در پے ناکام تجربات اور ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں پالیسیوں کے عدم تسلسل کے باعث بوجھ بن چکا ہے۔ سفارتی دور اندیشی کے فقدان کے باعث نہ صرف عالمی طاقتوں سے مضبوط اور معتبر تعلقات قائم نہیں ہوسکے بلکہ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے ریاستی وقار کو بھی شدید زک پہنچا دی ہے ۔ایٹمی طاقت کی حامل پاکستانی ریاست اقوام عالم سے تعلقات کے تناظر میںلگتا ہے تنہائی کا شکار ہے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات میں رومانویت کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی نظریاتی پہلو کی اب کوئی اہمیت باقی رہی ہے۔یہ ریاستوں کے مفادات ، ضروریات اور حالات کی مقتضیات ہیں جو ان تعلقات کو استوار اور مستحکم کرتی ہیں۔معاشی ترقی ،سماجی بہتری اور داخلی سلامتی کے تحفظ پر ہی ریاست کا مستقبل اور اس کی بقا کا انحصار ہے۔معاشی مفادات نے ریاستوں کے درمیان فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔تجارت میں وسعت اور کشادگی کی تلاش اب سفارتی ہنر میں کمال مہارت کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ ملکوں کے درمیان اب معاشی تعاون کی بنیاد پر اتحاد قائم کئے جارہے ہیں ۔تجارتی راہداریا ں اب بین الاقوامی سیاست اور سفارت کی ترجیح اول بن گئی ہیں ۔ایران اور سعودی عربیہ کے تعلقات کی تجدید نوہو یا اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطی کے مسلم ممالک کے درمیان اشتراک عمل کا آغاز،چین ہو یا بھارت ،سب کے پیش نظر معاشی مفادات اور تجارتی وسعت سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ معیشت کی مضبوطی پر ہی اب ریاست کی ترقی اور محفوظ مستقبل کا انحصار ہے ۔ عالمی سیاست اور اقوام عالم کے درمیان تعلقات کی یہی راہ عمل ہے جس سے گریز یا پہلو تہی اب کسی بھی ریاست کے لئے ممکن نہیں رہی۔ اس تناظر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ اس کی عالمی ساکھ کیا ہے اوراس کی سیاسی تاریخ کتنی معتبر ہے؟ ان سب کے جوابات ، انتہائی تکلیف کے ساتھ ، کسی بھی طرح باعث افتخار نہیں ہیں۔ پون صدی کا سفر معیشت ، تجارت ، سیاست اور داخلی سلامتی کے حوالے سے ترقی ء معکوس ثابت ہوا ہے۔ دکھ کی بات یہ کہ اس زیاں کا احساس جنہیں ہونا چاہیئے وہ ہی اس سے سب سے زیادہ بے نیاز ہیں۔ پاکستان میں سیاست کا اگر یہی چلن رہا ، آمدنی اور اخراجات کا تفاوت یونہی بڑھتا رہا ، معیشت قرض پر چلائی جاتی رہی ، قومی اثاثے فروخت کئے جاتے رہے،صنعتیں بند ہو رہی ہوں اور زرعی پیداوار عدم توجہ کا شکار ہو کر ملک کی ضروریات پورا کرنے سے قاصر ہو،برآمدات گھٹ رہی ہوں اور درآمدات بڑھ رہی ہوں تو پھر عالمی سیاست میں ہمارے کردار اور مقام کا تعین ایٹمی طاقت کی وجہ سے تو ہونے سے رہا۔یہی وہ زمینی حقائق ہیں جن سے ریاست کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ریاستوں کی داخلی سلامتی کا انحصارسیاسی استحکام پر ہے۔ اسی سے معیشت کی بہتری کی راہیں کھلتی ہیں ۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور سماجی ترقی کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔پاکستان میں سیاست دان یہ سیدھی سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں یا بوجوہ نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔کوئی بھی سیاسی حکومت نہ تو اپنا دورانیہ مکمل کر پاتی ہے اور نہ ہی سیاسی عمل کی پختگی میں ان کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے ۔یہ سیاستدان ہی ہیں جو سیاسی عمل کے تسلسل کو جاری نہیں رہنے دیتے۔حکومت سے باہر رہ جانے والے سیاست دانوں کی اول روز سے ہی حکومت گرانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں اور ان کوششوں میں وہ دیگر غیر سیاسی مگر بااثر قوتوں کی حمایت کے لئے بھی سرگرداں رہتے ہیں۔ پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لئے عوام کی طاقت سے زیادہ ان ہی بااثر قوتوں پر انحصار کرتی آئی ہیں جس کا نتیجہ سیاسی عمل میں سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی صورت پورے سیاسی نظام میں واضح طور پر موجود ہے۔ سیاسی اداروں کا استحکام سیاستدانوں کے سیاسی اخلاقیات پر مبنی رویوں پر ہے جس سے پاکستانی سیاست دان عمومی طور پر محروم ہیں۔سیاست دانوں کا یہ رویہ نہ صرف سیاسی عدم استحکام کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں معیشت کا بھی برا حال ہو چکا ہے ۔دور رس معاشی منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث معاشی ترقی کا عمل جمود کا شکار ہو کرریاست کے معاملات چلانے کے لئے ناکافی ہو چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے مسائل مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔سیاستدانوں کی عاقبت نااندشی سے سیاسی ادارے کمزور اور بے وقعت ہو گئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ریاست کے دیگر ادارے اس صورتحال میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر تے رہے ہیں اور سیاسی نظام میں اپنے اثرات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، بنیادی ذمہ داری اب بھی سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ وہ جب تک اپنے طرز عمل کو تبدیل نہیں کرینگے صورتحال نہیں بدلے گی ۔پاکستان کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشی ترقی کا عمل درست سمت میں جاری ہو اور اس کے لئے سیاسی استحکام اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل قائم ہو ۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال اگرچہ بڑی تشویشناک ہے ،سیاستدانوں کا طرز عمل بھی ٹھیک نہیں ہے ،داخلی سلامتی کے مسائل بھی پیچیدہ ہیں اور عوامی سطح پر بھی عدم اطمینان بڑھ رہا ہے ۔ ریاست کی بقا اور اس کے مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ تمام ارباب حل و عقد ( فیصلہ ساز ) ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہو کر ریاستی معاملات کو آگے بڑھائیں ۔اس مشترکہ لائحہ عمل میں معیشت کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیئے ، جب تک معیشت پر چھائی ہوئی دھند صاف نہیںہوگی ریاست کی عالمی ساکھ کو بہتر ی کا ہدف حاصل نہیں ہوگا۔کچھ سخت فیصلے اور ان کا دیانت دارانہ نفاذ ریاست کے لئے اب ناگزیر ہو چکے ہیں!!