ایسا لگتا کہ ہم اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ سب ہی ایک ایسے معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس سے ملک اس غیر یقینی اور مشکل دور سے نکل جائے۔ اسی وجہ سے یہ بحث لاحاصل لگتی ہے کہ حالات پہلے سے زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ جب عوام کے منتخب ایوان میں بیٹھے لوگ اپنی سیاسی چالوں اور ذاتی مفادات کے کھیل میں قومی مفادات کو نظر انداز کرتے جائیں، انصاف جب جرم اور سزا کے درمیان تفریق نہ کی جائے ، جب مساوات پر یقین نہ رکھا جائے،عدل سے پردہ پوشی ہو، جب لوگوں میں تفریق کی جانے لگے تو پھر اسے انصاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے اکابرین سیاسی گیم کو برج کے کھلاڑی کی طرح کھیل رہے ہیں۔ ان کے سامنے جو امتحانی پرچہ ہے وہ قطع نظر اس کے کہ پرچے کا سوال کیا ہے اور اس کا اصل جواب کیا ہے۔ وہ اسے Guessپیپر کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ جس شہر سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف بلوچستان کا دارالخلافہ ہے ، اس چھوٹے سے شہر میں کئی فکری سیاسی سماجی اور لسانی رنگ ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شہر پورے ملک کی بات نہ صرف سکون سے سنتا ہے بلکہ مدلل انداز میں اس کا جواب دیتا ہے۔ کاکٹر صاحب اسی رنگ کی تصویر ہیں، انہیں اپنی بات کہنے کا غیر معمولی سلیقہ ہے، اس لئے پہاڑوں پر چڑھے نوجوانوں تک ان کی بات توجہ سے سنی اور سمجھی جائے گی۔ ہم نے انہیں اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے بلوچ قوم پرستوں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے دیکھا تھا اور فوج کے ساتھ بلوچستان کا موقف بھی پورے قرینے سے رکھتے دیکھا تھا۔ ان کے ایسی بے شمار خوبیوں کے سبب ہر کسی کو توقع تھی کہ ایسا شخص جو اپنی بات کہنے کا غیر معمولی سلیقہ رکھتا ہے۔ شدید اختلاف کے باوجود اپنے حریفوں سے بھی محبت اور اخلاص میں کمی نہیں آنے دیتا، وہ بدترین مخالف کے ساتھ بات کرتے ہوئے احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان میں انتہائوں کے درمیان مشترکہ مفاد تلاش کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ اس لئے جب وہ اس منصب پر فائز ہوئے تو ہم سب کی توقع تھی کہ وہ اپنی صلاحیت کو بروئے کار لائیں گے اور بڑھتی ہوئی خلیج کے بیج کوئی پل تعمیر کریں گے تاکہ ہم ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلبے کی جبلت انسان کو اس طرح پامال کرتی ہے کہ وہ ہ چیز بھول جاتا ہے۔ تھریک انصاف کے چیئرمین سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ وہ زمینی حقائق کو سمجھ ہی نہ سکے ۔ پانامہ کیس کے بعد تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف سیاسی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے نااہل ٹھہرا دیے گئے تو وہ دیدہ ور کی طرح ابھرنا شروع ہو گئے اور جولائی 2018ء تک اس وقت تک بھرپور سرپرستی سے گریز نہیں برتا گیا۔ پھر برسر اقتدار آنے کے بعد بھی وہ ایک پیج کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے رہے، وقت گزرتا رہا اور وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وقت کبھی ساکت نہیں رہتا۔ حالات بدلتے ہیں تو ترجیحات بھی بدلتی ہیں۔ نمایاں چہروں سے اکتا جانے پر ہی قوم نے انہیں اقتدار کے گھوڑے پر سوار کیا تھا۔ راقم سابق وزیر اعظم کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ کرکٹ کے میدان میں ایک دیو مالائی کردار تھے۔ ان کی کمزوریاں اور خود کو ایک بے خوف شخص کے طور پر پیش کرنا ان کا آرٹ ہے۔ کرکٹ کیریئر کے دوران وہ ہر سوال کا جواب حقائق اعداد و شمار اور منطق کے حوالے سے دیا کرتے تھے اور جب سے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا، جب بھی کوئی ان سے مشکل سوال کرتا ہے تو وہ ایسے سوالات کا رخ موڑنے اور سوالات کرنے والے کو بھٹکانے کی کوشش کرتے ۔ وہ بعض اوقات مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں، ابتدا میں انہیں سیاست میں قسمت آزمائی کی ترغیب جنرل مجیب نے دی تھی۔ 1996ء میں انہوں نے جنرل حمید گل کے ساتھ بھی کام کیا پھر بعد میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ اس میں کوئی شک کہ وزارت عظمیٰ کے دور میں انہوں نے بڑی مہارت سے اپنے مخالفین کو تتر بتر کرنے اور حوالات کے سیر کرانے میں بھر پور سرعت کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے پے درپے بیانیے اور اپنی عوامی مقبولیت کو بتدریج توانا رکھنے میں ضرور کامیابی حاصل کی لیکن جب بہت سی حدود کو پھلانگنے کی غلطی کر بیٹھے اور خود کو گیم کے رولز اور ضابطوں سے مبرا اور بے نیاز سمجھنے لگے تو ان سے وہ غلطیاں بھی سرزد ہوئیں کہ پھر قانون اور ریاست کو انہیں نظر بھر کر دیکھنا پڑا ۔جب سیاسی منظر نامے میں سیاست کا کھیل کود قومی سلامتی کا مسئلہ بننے لگا اور انہوں نے ایک سیدھے اور سبک راستے کے بجائے بے ترتیب گھاٹیوں والے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے خود سے یہ حقیقت پسندانہ سوال نہ کر سکے کہ وہ اس سفر میں کمزور ہوئے یا توانا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب شہرت اور مقبولیت نشہ انسان کو ڈگمگا دیتا ہے۔ عمران فرصت کے لمحات میں یقینا سوچتے ہوں گے کہ ان سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہیں۔ جب ان کی شخصیت پر نظر ڈالتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا ہر رنگ اور ہر دو میں ہر پہلو پیاز کی پرت کی طرح ایک دوسرے میں چھپا ہوا ہے وہ اپنی پہاڑ جیسی انا پر چڑھ کر حالات کو اپنے مخصوص انداز سے دیکھنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں اور اس لئے وہ الل ٹپ فیصلے کر بیٹھے جس کا خمیازہ وہ اور ان کی پارٹی بھگت رہے ہیں انہیں اپنی غلطی کا احساس تو ہو گیا ہو گا۔ 9مئی کے افسوسناک واقعات نے نہ صرف کئی نئے سوالات پیدا کئے ہیں بلکہ کئی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے لیکن تاریخ کی سچائی یہ ہے کہ انتہائی مایوسی میں بھی امید کی کرن کہیں سے جھانک رہی ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی سمجھ لیں۔کہ آگے موڑ ہے۔ سڑک بھی تنگ اور موڑ بھی خطرناک۔ کھائی ہے اور سامنے پتھریلی چٹان۔ نواز شریف جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ زمین حقائق سے مماثلت نہیں رکھتا ان کے لئے ایک آپشن یہ ہے کہ وہ خود کو اور اپنی پوری شریف فیملی کو وزارت عظمیٰ کی امیدواری سے دستبردار کر لیں ۔لوگوں کو بتائیں کہ وہ صرف عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور پھر کھل کر یہ بھی بتائیں کہ ملک کو اس بحران سے نکالنے کا عملی طریقہ کیا ہے۔ زرداری صاحب اور نواز شریف کو ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ کوئی ایسا کردار ادا کریں کہ ان کی بچھائی ہوئی میز پر سب بیٹھ جائیں۔ مذاکرات بات چیت اور مکالمہ کے دستوری راستے کھلنے چاہئیں۔ اقتدار کا پاور گیم سب کھیل چکے اگر اقتدار کے تمام نمایاں چہروں اور مکر بند سیاسی لیڈروں کو کچھ کرنا ہے تو وہ خدشات ‘اندیشوں اور بڑھتی ہوئی مایوسی میں کوئی ایسی تدبیر کریں جو ناامیدی کے بھڑکتی آگ پر پانی کے چند قطرے ڈال سکیں۔