یہ کئی برس ادھر کی بات ہے 1984کا سال اور دسمبر کا مہینہ… سلسلہ کوہ ہندو کش نے برف کا احرام پہن لیاتھا ۔ہوائیں کہستانوں سے ٹکراتی پھرتی تھیں ۔سخت سردی میں زندگی ٹھٹھر کر رہ گئی تھی ۔ اسلام آباد میں انتظار کی طویل گھڑیاں گزار کر ہم ان دیکھی منزل گلگت کی جانب محو پرواز تھے ۔ جہاز میں کھسر پھسر کے بعد طویل سناٹا چھا گیا تھا ۔ زمین پر ہر چیز نکھر کر ابھر ی تھی ۔آج کئی دنوں کے بعد سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ جہاز میںہر چہرے پر مسرت تھی ۔سب کی نظریں دور نیچے پہاڑوں پر برف کی دبیز تہہ پر جمی ہوئی تھیں۔ معاً جہاز بادلوںمیں داخل ہوا۔ تھوڑی بلندی سے جہاز نے اترائی کی طرف ڈبکی لگائی تو سکوت تڑاخ سے ٹوٹ گیا ۔چند بلند آہنگ چیخیں تھیں جنہوں نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا ۔ اکثر چہروں پر خوف کی واضح علامات ابھر آئی تھیں ۔ جہاز کے پائلٹ نے صورت حال کو سنبھالتے ہوئے اعلان کیا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ‘بادلوں کی وجہ سے جہاز کو نچلی سطح پر لایا گیا ہے ۔ اکثر نے پائلٹ کی بات مان لی۔وہ ایک بابا جی تھے، جن کی چیخ نے سب کو دھلا دیا تھا اور وہ مان کر نہیں دے رہے تھے ۔ وہ کھڑے ہو گئے اوردھاڑ کر بولے ۔ ’’ نالائق ہیں ‘سب نالائق ۔اﷲ بھلی کرے گا ‘ بس اﷲ پر چھوڑ دو ۔‘‘ ’’ بابا!شور کرنے سے موت نہیں چھوڑتی ۔‘‘ کسی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ چیخ اٹھے ۔ ’’اس جہاز کو بھی اﷲ پر چھوڑ دو … اﷲ بہترکرے گا ۔‘‘ ’’ یعنی پائلٹ کو اتار دیں ؟‘‘ ایک دانشور قسم کے مسافر نے پوچھا ۔ ’’ سب کا پائلٹ اﷲ ہے ۔‘‘ وہ اپنا فلسفہ جھاڑ رہے تھے۔ معاً وہ اٹھے اور للکار کر کہا: ’’ لوگو! میری بات غور سے سنو ۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے جہاز نے ایک اور ڈبکی کھائی اور ایسے لگا جیسے سیدھا نیچے برفیلے پہاڑوں کی کھائیوںمیں اتر جائے گا ۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنی چیخ ضبط کی۔ جہاز کے عملے نے آگے بڑھ کر بابا جی کو بٹھا دیا ۔ انہوں نے اپنی اونی ٹوپی کانوں پر چڑھائی ۔چند لمحے آنے والے انجام کے خوف سے دبکے رہے ‘پھر نہ جانے انہیں کیا ہوا کہ کھڑے ہو گئے اور بولے۔ ’’ اس جہاز کا پائلٹ‘ اس ملک کے پائلٹ کی طرح ہے ۔ ‘‘ یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور ہمارا زمانہ طالب علمی ۔پورے ملک میں ضیاء الحق کے خلاف نفرت کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک طرف اس کی شرافت کے چرچے تھے اور دوسری طرف اس کی اقتدار سے وابستگی کی ہوس ۔ ایک طرف افغان جہاد میں بھر پور کردار تھا لیکن دوسری جانب کراچی سے خیبر تک سیاسی مخالفین کے لیے ’’ افغانستان ‘‘ برپا کر دیا گیا تھا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب شمالی علاقوں میں مارشل لاء کے جبر کے زیر سایہ لوگ اپنے حقوق کی بات کے لیے آواز بلند کررہے تھے۔ ادھر پورے ملک میں سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔احتجاج کرنے والے طالب علموں کو کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں ۔ اس زمانے میں پانچ ہزار سے زائد طالب علم جیلوں میںڈالے گئے تھے۔ نوجوانوں میں ضیاء الحق کے خلاف نفرت ایک فطری بات تھی ۔ بابا جی کے منہ سے ضیاء الحق کے خلاف بات سن کر ہمارے بھی حوصلے بڑھ گئے ۔ وہ للکار کر کھڑے ہوئے اور بولے۔ ’’ لوگو ! میری بات سنو ! میں پاگل نہیں ہوں ۔جس طرح یہ جہاز بلندی سے پستی کی طرف ڈبکی لگاتا ہے اس طرح ملک کی کشتی بھی ڈول رہی ہے۔ اس کے حکمران بھی اسی طرح ملک کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں ۔‘‘ وہ بولے جا رہے تھے۔ ان کی ساری تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ضیاء الحق اس ملک کو بحران میں ڈال چکا ہے ۔ایسا بحران جس کی سزا آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ ہماری اور اس کی سوچ کے دھارے یکجا ہو ئے تو اجنبیت دوستی میں بدل گئی۔ وہ تانگیر کے ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر تھے ۔ کسی عزیز سے ملاقات کے لیے کراچی گئے تھے ۔ ضیاء الحق کی پالیسیوں سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے انہوں نے طالب علموں کے کسی احتجاجی جلسے میں شرکت کی تھی ‘وہاں سے گرفتار ہوئے اور چھ ماہ بعد آج وہ واپس گلگت جا رہے تھے ۔ان کے جذبات بھڑک رہے تھے ۔ ’’ حکمران ہمارے حقوق غضب کرنا چاہتے ہیں ۔جینے کے حقوق ‘احتجاج کے حقوق ۔وہ شمالی علاقوں کے آئینی حقوق کی بات کرنا چاہ رہے تھے کہ جہاز نے اپنے پہیے رن وے پر ٹکا دیے ۔وہ کھڑے ہو گئے ۔ ’’ لوگو ! نہ جانے زندگی کی کتنی مہلت باقی ہے ۔ میری ایک بات سنو !‘‘ ’’ جب تک عدل قائم نہیں ہوگا، اس ملک کی قسمت نہیں بدل سکتی اور عدل یہ ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہو ‘ جس کا جو کام ہو وہ اپنے کام سے غرض رکھے … باقی کام اﷲ پر چھوڑ دے ‘اﷲ بھلی کرے گا ۔‘‘ مسافر بکھر گئے۔ اس رات ہم گلگت میںکو نو داس کے علاقے میں اپنے ایک دوست کے گھر ٹھہرے تھے۔ آدھی رات کو کسی نے دروازے پر دستک دی ۔ باہر ہمارا میزبان دوست کھڑا تھا اوراس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔اس نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ اس کے دادا ابو تھوڑی دیر پہلے فوت ہو گئے ہیں۔ رات کو ہی انہوں نے اپنے عزیزوں کو اطلاع کی اور فجر کی نماز تک کفن دفن کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ ہمارا دوست بتا رہا تھا کہ دادا جی کل ہی اسلام آباد سے آئے تھے وہ کراچی میں چھ ماہ گرفتار رہے ہیں ۔ معاً مجھے جہاز والے بابا جی یاد آ گئے۔ تابوت میں کفن کے اندر لپٹے یہ وہی بابا جی تھے۔ نماز جنازہ کے لیے صفیں بندھ چکی تھیں ۔ہمارا دوست آصف آگے بڑھا اور بولا حضرات! میرے دادا جی کی آخری وصیت آپ کو پڑھ کر سنانی ہے جو رات کو وفات سے قبل انہوں نے لکھی ہے ۔ ’’ لوگو ! عدل قائم کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کرو گے تو اﷲ کو کیا منہ دکھائو گے ‘ اﷲ بھلی نہیںکرے گا ۔ اپنا کام کرو کسی اور کا کام نہ کرو … اﷲ کا کام اﷲ پر چھوڑ دو ۔‘‘ کئی برس بیت گئے ۔ تانگیر کے بابا بے طرح یاد آئے ۔انہیں اس دنیا سے گئے ہوئے تین عشرے بیت گئے ۔ تانگیر بابا کی یاد بھول گئی‘ شکل ذہن کی سکرین سے محو ہو گئی ۔حکمران بدل گئے ‘ہر چیز بدل گئی ‘ چہرے بدل گئے اور انداز و اطواربدل گئے ۔ کچھ نہیں بدلا تو ہمارے حالات نہیں بدلے۔ ہمارا نظام نہیں بدلا ‘ہمارے دن نہیں بدلے‘ ہمارا جہاز یوں ہی بلندیوں سے شوں کر کے پستی کی طرف آتا ہے۔ ہم یوں ہی ہچکولے کھاتے جا رہے ہیں اور جہاز کے مسافر تانگیر کے بابے کی طرح اپنی اپنی منزل پاتے جا رہے ہیں … کانوں میں آواز گونج رہی ہے۔ ’’ اﷲ پر چھوڑ دو … اﷲ بھلی کرے گا ۔صرف اپنا کام کرو کسی اور کا کام نہ کرو ۔‘‘ لیکن یہاں جہاز کے پائلٹ اپنا کام چھوڑ کر ٹرک چلانے پر اصرار کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا۔