زمانہ بدل گیا ہے! یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم اکثر کوئی غیر متوقع خبر یا واقع دیکھ کر اپنے دل یا اپنی زبان سے دہراتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں کو یاد کریں تو ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسی خبریں اور واقعات ہمیں تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں،خاص طور پر پاکستان،اسلام اور ہماری معاشرتی روایات کو لے کر۔پہلے پہل اگر یہ خبر سنتے تھے کہ احادیث مبارک کو سکولوں کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا ہے یا اصحابہ کرامؓ اور مشاہیر اسلام کے متعلق اسباق کو ’’ مغربی ہیروز‘‘ کے متعلق اسباق سے تبدیل کر دیا گیا تو بہت عجیب بھی لگتا اور غصہ بھی آتا لیکن پھر ایسا ہونے لگا کہ ایسی کسی خبر کو سن کر ہم کہتے ہیںکہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہے اور اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن ہمارے میڈیا پر کچھ مخصوص دانشور پیش کیے جاتے ہیں، جو پنجابیت اور کلچر کے نام پر بھگت سنگھ اور راجہ رنجیت سنگھ کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے؟ یا پھر ہمیں بدلنے کی منظم سازش ہو رہی ہے؟ معاشرتی روایات صدیوں میںبنتی ہیں اور اگر قدرتی عمل سے ان میں کوئی تبدیلی آنی بھی ہو تو اسے بھی اتنا ہی وقت درکار ہوتاہے اور ہونے والی تبدلیاں ہمیشہ مثبت ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری روایات،تہذیب اور افکار گزشتہ ایک دو دہائیوں میں ہی شدید تبدیلی کا شکار نظر آ رہے ہیں اور یہ سب تبدیلیاں نہ صرف منفی بلکہ ہمارے ملک،مذہب اور معاشرے کے خلاف ہیں۔کیا یہ خودبخود اور اندر سے وقوع پزیر ہونے والا ایک قدرتی عمل ہے یا پھر اس سب کے پیچھے کچھ بیرونی عوامل اور طاقتیں ہیں؟ پہلے پہل انسانی بہادری اور طاقت کی بنیاد پر دوسری اقوام پر غلبہ حاصل کیا جاتا تھا۔’’پھر سیکنڈ جنریشن وار‘‘ آئی اور پہلی جنگ عظیم میں جسمانی طاقت کی جگہ آتشی اسلحے اور توپخانے نے لے لی۔تھرڈ جنریشن وار کا جنم ہوا تو آتشی اسلحے کے علاوہ بحری اور فضائی طاقت کے مربوط مظاہرے کے ساتھ پراپیگنڈہ اور میڈیا کی جنگی اہمیت اجاگر ہوئی۔لیکن پھر بھی یہ جنگیں بہر طور آمنے سامنے لڑی جاتی تھیں۔پھر سوچا گیا کہ جنگ کو صرف مخالف کی سر زمین پر لڑا جائے اور اس میںبھی اپنے فوجی کم سے کم استعمال ہوں۔ یہ ’’ فورتھ جنریشن وار‘‘ تھی جس کی مثال روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں نظرآئی۔یاد رہے جنگیں تب ہوتی ہیں جب مخالف نظریات رکھنے والی دو یا زیادہ اقوام ایک دوسرے کے نظریات پر غلبہ پانے کی کوشش کر رہی ہوں۔اگر کسی طور روایتی جنگ کے بغیر ہی مخالف کے نظریات ہی تبدیل کر دیے جائیں تو جنگ کی ضرورت ہی ختم ہو جائے۔ اس سوچ نے ففتھ جنریشن وار کو جنم دیا، جس میں نہ تو اسلحہ بارود استعمال ہوتا ہے اور نہ اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔بلکہ یہ ہی پتہ نہیں چل رہا ہوتا کہ کون در حقیقت کس پر حملہ آور ہے۔ حملہ کی زد میں آنے والی قوم میں سے ہی کچھ لوگ میڈیا میں، خبروں ، کالمز اور ٹالک شوز میں اور کبھی NGOs کی صورت میں ’’لبرلزم ‘‘ اور ’’انسانیت ‘‘ کے نام پر اپنی ہی قوم کی قومیت اور نظریے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور مقصد ہوتا ہے کہ مخالف قوم کے نظریات اور معاشرے کے تانے بانے ادھیڑ کر اسے سیاسی،معاشرتی، نظریاتی اور مذہبی طور پر شکست دے کر اسکی آنے والی نسل کی سوچ، نظریات اور احساسات تباہ کر دیے جائیں اور مغلوب قو م اس سب کو زمانے کی تبدیلی اور معاشرتی ترقی سمجھتی رہے۔ اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار جسے آپ اس جنگ کا ’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کہہ سکتے ہیں،وہ یہ ہے کہ اسکولوں کی درسی کتب، تفریحی اور عوامی دلچسپی کے مقامات اور میڈیا اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے آنے والی نسل کی بنیادی سوچ ہی تبدیل کر دی جائے اور مذہب اور وطن سے محبت کی بجائے انکے دماغوں میں’’ انسانیت ‘‘کے نام پر وطن اور مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بو دیے جائیں جو آگے چل کر نفرت اور بیزاری کے درخت بن جائیں۔ اسلام کے اندر ہی ایک ایسا ’’اسلام‘‘پیدا کر دیا جائے جو اصل اسلام کو ختم کر دے۔اوراسلام کے نام پر قائم ہونے والے واحد ملک پاکستان کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں ایسے شکوک پیدا کر دیے جائیں کہ وہ نظریہ پاکستان بھول کر اس بحث میں پڑے رہیں کہ پاکستان بننا بھی چاہیے تھا کہ نہیں اور آخر یہ سرحد کیوں بن گئی۔ یہ سب باتیں کوئی ’’ دور کی کوڑی ‘‘ نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک سمیت امریکہ کے آرمی اور نیول وار کالج اور ائیر فورس کا ’’ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی‘‘ فتھ جنریشن وار کی تکنیک کو ’’ نان لیتھل ویپن‘‘(NLW) یعنی ’’ایسا ہتھیار جو دشمن کی جان نہیں لیتا ‘‘ کے طور پر اپنا چکے ہیں ۔ ایک مشہور تھنک ٹینک ’’ رینڈ کارپوریشن امریکہ ‘‘ کی رپوٹ ’’ سِول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام‘‘ میں بہت برس پہلے تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کر کے اسلام کی روح اور پاکستان کے نظریے کا خاتمہ کرنے کی غرض سے کس طرح ہماری ہی درسی کتب، چینلز، میڈیا اور کچھ ’’ لبرلز‘‘ اور NGOs کو استعمال کرتے ہوئے اسلام اور ’’ پاکستانیت‘‘ پر حملہ کرنا ہے۔ اسی لیے ہمارے سکول بند کروانے کی بجائے ہمارے سکولوں کے نصاب کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے یہاں مساجد کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن یہ خالی ہیں اور ہمارے گھر عملی طور پر بت کدے بن چکے ہیں،جہاں ماضی میں صحابہ کرامؓ کی بہادری کے قصے پڑھنے والی قوم کے بچے آج ’’ چھوٹا بھیم‘‘ ہنومان اور کرشن کی بہادری دیکھتے جوان ہو رہی ہے۔ جہاد کا واحد مطلب ’’ دہشت گردی‘‘ رہ گیا ہے۔ عجیب و غریب ٹالک شوز، کامیڈی کے نام پر فحاشی اور ڈراموں اور پروگراموں میں ثقافت کے نام پر روز بروز بڑھتی ’’ واہیاتی ‘‘ ہر گھر میں ساری فیملی اکٹھے بیٹھ کر دیکھتی ہے اور اسے نہ عیب سمجھتی ہے نہ عجیب۔ جناب زمانہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہمیں منظم طور پر تیزی سے تبدیل کیا جا رہے ہے۔ کیا ہم میں مزاحمت کی طاقت باقی ہے؟؟