راولپنڈی کی ایک عالیشان جامع مسجد میں فجر کی نماز کے بعد خطیب امام فرمانے لگے بظاہر ہمارا ملک تو اسلامی ہے لیکن کیا ستم ظریفی ہے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں PSL منعقد ہو رہا ہے۔ امام صاحب نے اپنی ذاتی کیفیت بھی بیان کی کہ کس طرح نوجوان رات کو مسجد کے احاطے میں کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور گیند کس طرح مسجد کے در و دیوار کو لگتی رہی ۔ مسجد تو اللہ کا گھر ،عبادت اور احترام کی جگہ ہوتی ہے جبکہ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال نوجوان دوسروں کی نیندیں حرام کرتے رہتے ہیں۔ اخلاقی برائیوں سے معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے والدین اور اساتذہ کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی اور تعلیم و تربیت کی عدم توجہ یا کوتاہیوں کے بارے میں امام صاحب کی ساری باتیں سو فیصد درست تھیں مگر امام صاحب کو شاید یہ پتہ نہیں کہ مغربی ممالک کے برعکس کس طرح پاکستان میں PSL میں فلسطین کے جھنڈے لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی وگرنہ اس کا ذکر بھی وہ ضرور کرتے خیر پھر امام صاحب نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد دعا مانگی میں نے سلام اور مصافحہ کیا ان کی ساری باتوں کی تائید کرتے ہوئے عرض کیا حضور اپنی دعاوں میں یہ بھی دعا مانگا کریں کہ اللہ تعالیٰ نمازیوں کو موٹر سائیکلوں کے سائلنسروں کے دھویں اور کانوں کے پردے پھاڑنے والی آوازوں اور ہارن بجانے سے محفوظ فرمائے چونکہ ہر موٹر سائیکل سوار اور گاڑی والا کوشش کرتا ہے کہ وہ مسجد کے دروازے کے ساتھ یا احاطہ میں گاڑی کھڑی کرے بھلے دوسرے نمازیوں کا راستہ بند ہی کیوں نہ ہوجائے مشاہدے میں آیا ہے پاکستان کی اکثر مساجد میں نماز ادا کرتے وقت نمازی ایک دوسرے کو نہ دعا سلام کرتے ہیں نہ تعارف اور حال احوال پوچھتے ہیں مصحافہ کرنا تو درکنار نہ صف بندی میں احتیاط کرتے ہیں حالانکہ مغربی ممالک کے مسلمان آپس میں ضرور ایک دوسرے سے سلام دعا کرتے ہیں پاکستان میں اکثر مسجدوں کے وضو خانوں میں صابن نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی ہے آپ کس طرح استنجا کرکے وہی ہاتھ بغیر دھوئے باقی وضو کرتے ہیں اگرچہ عورتوں کی آبادی تقریباً پچاس فیصد ہے لیکن مساجد میں ان کے لئے نہ وضو کرنے کی الگ جگہ ہوتی ہے نہ نماز کی۔ اسی طرح معذورافراد کے لئے باتھ روم کا بندوبست نہیں ہوتا۔ رمضان المبارک یوں تو نیکیوں، عبادات اور بخشش کا ذریعہ ہے لیکن منافع خوروں کے لئے جہنم میں اپنا ٹھکانہ سو فیصد پکا کرنے کا بھی سبب ہے ۔ رمضان سے پہلے جو چیز سو روپے کی ملتی تھی رمضان میں دو سو کی ہے ہر کسی کا اپنا ریٹ ہے لوکل گورنمنٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے جن ممالک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام مضبوط ہے وہاں یہ کام مقامی حکومتیں کرتی ہیں اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ عام سی بات ہے نہ سواد نہ ذائقہ نہ دْودھ نہ چائے نہ دوائی خالص، پولٹری فارم کی مرغیوں کے گوشت کا ذائقہ ایسا جیسے بھوسہ ہے ایسی خوراکیں کھانے والوں کی صحت کا اللہ ہی مالک ہے۔ کوئی ایسی دوکان یا دفتر نہیں جہاں قطار بنانے کا رواج ہو قطار میں لگنا ایسے ہی سمجھا جاتا ہے جیسے یہ توہین آمیز کام ہو ۔مولانا طارق جمیل صاحب اپنے ایک خطاب میں فرما رہے تھے کہ"رمضان المبارک میں سب کی بخشش ہوجائے گی لیکن چار قسم کے افراد کی بخشش نہیں ہو گی پہلا مستقل شراب پینے والے کی بخشش نہیں ہو گی، دوسرا ماں باپ کے نافرمان کی بخشش نہیں ہوگی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کے نافرمان کی سزا تو دنیا سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور آخرت تک جاتی ہے یعنی نافرمان اولاد کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ملتی ہے تیسرا رشتہ داروں سے لڑنے وال اور چوتھا وہ شخص جو دوسروں کے بارے میں دل میں کینہ رکھتا ہے۔ آج دیکھیں ہم مسلمان کن برائیوں میں مبتلا ہیں معاشروں میں انسانی قدروں کا تعین اخلاقیات کی بنیاد پر ہوتا ہے جس کے لئے ہمیں ہر صورت سعی کرنی چاہئے میری یہ تحریر بھی ایک یاد دہانی کے لئے ہے۔اچھے اخلاق میں بہت سی باتیں شامل ہیں جیسے گفتگو میں نرمی، صبر، مسکراہٹ، رحم دل مزاج، خیرخواہی، محبت، تحفہ، شرم وحیاء ، امانت، ذمہ داری، ادب، باہمی تعلقات، والدین کے ساتھ حسن سلوک، بچوں کے ساتھ شفقت، صلہ رحمی، ہمسائے کے حقوق، یتیم کے ساتھ حسن سلوک۔ یہ ساری باتیں ہمارے اخلاق کو اچھا بناتی ہیں۔اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اخلاق کیسا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے نبی محمد صلی اللّہ علیہ وسلم کے اخلاق سے سیکھنا چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے"درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایک بہترین نمونے ہے" آپ ﷺلوگوں کی ساری زندگی دوسروں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دینے کا عملی نمونہ ہیں ہم محرم الحرام ، 12 ریبح الاول مسجد نبوی خانقاہوں اور درگاہوں میں یا نعروں میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ہمیں عملی طور پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو حضورﷺ کی زندگی کے مطابق گزارنے کی سعی بھی کرنی چاہیئے چونکہ انسانوں کے مجموعی کردار سے ہی کسی ملک اور معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے پاکستان ہمارا ملک ہے جو ہماری دنیا میں پہچان اور شناخت ہے آئیے اس ملک کو اپنے اعلیٰ اخلاق ، عدل وانصاف اور دوسروں کا حق انہیں لوٹا کر اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنائیں 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں نے پورے برصغیر سے لاہور جمع ہو کر جس پاکستان کی بنیاد رکھی تھی وہ اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان تھا ملک تو قائم ہوگیا لیکن اس کا حقیقی طور پر اسلامی تشخص بحال کرنا اور اخلاقی قدروں کا حصول ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔