جب آقائے دو جہاں اورمحبوب رب المشرق اور مغرب نے اہلِ مکہ اور مدینہ کے درمیان اخوت کا رشتہ استوار کیا ، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے تو حضر ت علی ؑ نے عرض کی"یا رسول اللہﷺ،آپ نے سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔میرا بھائی کون ہے"؟ آقا ؐ نے فرمایا!" تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو"۔آپؐ ایک روزمسجد کے منبر پر کھڑے تھے۔ فرمایا!"عرش کے ماسواء جو چاہو سوال کرو۔میرے سینے میں بے شمار علوم ہیں۔یہ لعاب رسالتِ پناہ کا اثر ہے۔مجھے اس خُدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر تورات اور انجیل سے بات کرنے کا حکم ہو تو میں ان دونوں کتابوں سے خبر دوں"۔جب نبی آخر الزماںؐ اس عالمِ فانی سے پردہ فرما گئے تو مسجد میں ایک شخص منہ پر نقاب ڈالے آیا اور رسول اللہؐ کا پوچھا۔بتایا گیا کہ وہ پردہ فرما گئے ہیں۔اُس نے کہا کہ میرے کچھ سوال ہیں،اُن کا جواب مطلوب ہے۔سب نظریں حضرت علی ؑ(باب العلم) کی طرف اٹھ گئیں۔آپ نے کہا! پوچھو۔اُس نے سوال پوچھنے شروع کیے تو سب نے منہ میں انگلیاں ڈال لیں۔پہلا سوال:وہ کونسا نر ہے جو ماں باپ نہیں رکھتا؟آپ نے فرمایا،حضرتِ آدم ۔وہ کونسی مادہ ہے جس کے ماں باپ نہیں؟جواب: حضرتِ حوا۔وہ نر جو بن باپ پیدا ہوا؟جواب:حضرتِ عیسیٰ ؑ۔اللہ کا وہ کونسا پیغامبر تھا جو نہ تو بنی آدم سے تھا اور نہ ہی قومِ جن سے،نہ ہی ملائیکہ سے؟آپ نے ارشاد فرمایا :وہ پرندہ جسے اللہ پاک نے قابیل کی راہنمائی کے لیے بھیجا۔وہ کونسی زمین ہے جس پر صرف ایک دفعہ سورج چمکا؟جواب: وہ زمین دریائے نیل کا حصہ تھی جسے موسیٰ ؑکی قوم کے لیے دریا میں راستہ بنانے کے لیے آشکار کیا گیا۔اس پر صرف ایک دفعہ سورج چمکا۔۔دوبارہ نہ چمکے گا۔نقاب پوش نے ایک اور سوال کر دیا:وہ کونسی قبر ہے جس نے اپنے صاحب کو سیر کروائی؟جواب:وہ مچھلی جس نے حضرتِ یونس ؑ کو30دن اپنے پیٹ میں رکھا اور سمندر کے اطراف کی سیر کروائی۔نقاب پوش نے20سوال کیے،آپ نے سب کا جواب قرآن کی رو سے دیا۔ آقا ئے دو جہاںؐ کا ارشاد ہے"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں"۔جب منافقوں نے یہ قول سنا تو حسد میں مبتلا ہوگئے۔دس عالموں کو تیار کیا گیا کہ حضرت علی ؑ کو علم کی دنیا میںلا جواب کر دیا جائے۔تیار ہو کر دس عالم آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے"سوال ایک ہی ہو گا مگر جواب ہم سب کو مختلف ملنا چاہیے"۔سوال یہ تھاــ:علم بہتر ہے یا دولت؟اگر علم بہتر ہے تو کیوں؟۔آپ کے جوابات:علم انبیاء کی میراث ہے اور مال قارون،فرعون اور ہامان کا ترکہ:علم تیری حفاظت کرتا ہے اور مال کی تجھے حفاظت کرنا پڑتی ہے:مال والے کے لوگ دشمن ہوتے ہیں اور علم والے کے دوست،اس لیے علم افضل ہے:علم خرچنے سے بڑھتا ہے اور مال خرچنے سے کم ہوتا ہے:صاحبِ مال کو بخیل کہتے ہیں اور علم والے کو کریم:مال والے سے مال کا حساب ہو گا،علم والے سے اس طرح حساب نہیں ہو گا:علم کی محبت سے دل روشن ہوتا ہے اور مال کی محبت سے دل سیاہ:مال سے انسان میں تکبر آ جاتا ہے،وہ خدائی کے دعوے کرنے لگتا ہے مگر علم والا اللہ کا مرتبہ جان کر عاجزی اختیار کر لیتا ہے:مال چوری ہو جاتا ہے مگر علم کو کوئی بھی نہیں چُرا سکتا۔آپ نماز پڑھنے مسجد کی طرف جا رہے تھے۔وقت قلیل تھا۔ایک یہودی مسکراتا ہوا آپ کی جانب بڑھا۔کہنے لگا!علی ؑ: یہ بتائیے کہ انڈے کون سے جاندار دیتے ہیں اور بچے کون سے جاندار؟اُس کا خیال تھا کہ وقت ضائع ہو جائے گا اور نماز میں تاخیر ۔آپ نے چلتے چلتے کہا"وہ جن کے کان باہر ہیں بچے دیتے ہیں اور وہ جن کے کان اندر ہیں انڈے دیتے ہیں"۔ حضرت علی ؑ کی والدہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں۔باب العلم ان کے شکم میں تھے۔بچے کی ولادت کا وقت آن پہنچا۔کعبہ کی دیوار شق ہو گئی اور غیب سے آواز آئی"آپ اندر آ جائیں"۔بی بی اندر تشریف لے گئیں۔سامنے ایک پردہ تھا ۔بی بی پردے کے پیچھے پوشیدہ ہو گئیں۔آپ ؑ مولودِ کعبہ بن گئے۔یہ فضیلت صرف آپ ہی کو میسر ہے۔سرکارِ رسالتؐ نے ایک بار فرمایا!"علی ؑ۔۔ تم کو تین ایسی فضیلتیں عطا ہوئیں جو تمام مخلوق میں کسی کو حاصل نہیں۔پہلی یہ کہ تم کو مجھ جیسا سُسر عطا ہوا۔میری بیٹی فاطمہ تمہاری زوجہ قرار پائی۔تمہیں حسن ؑ اور حسین ؑ جیسے فرزند عطا کیے گئے"۔آقا ؐ ارشاد فرما رہے ہیں کہ" علی ؑ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسیٰ ؑسے ہارون کو تھی۔۔اگرچہ میرے بعد کوئی نبی نہیں"۔راحت القلوب میں شیخ فرید الدین شکر گنج اور خواجہ گیسو دراز بھی لکھتے ہیں کہ شبِ معراج سرکارِ رسالتؐ کو ایک خرقہ عطا ہوا۔"خرقہ ِولایت"۔یہ خرقہ اس کو عطا کرنے کا اذن ملا جو اللہ پاک کے بتائے ہوئے سوال کا وہی جواب دے جو ربّ کائنات نے اپنے محبوب کو بتایا ۔آقا ؐنے واپس آ کر صحابہ سے کچھ سوال و جواب کے بعد یہ خرقہ حضرتِ علی ؑ کو عطا کر دیا۔اس خرقے نے حضرت علی ؑ کو ولیوں کا تاجدار بنانے کا اعلان کر دیا۔ولایت میں بھی درجے اور گریڈز ہوتے ہیں۔ان کا تفصیلی بیان پھر سہی مگر یہ کہ ولی،قطب،غوث،ابدال اور قلندرمختلف درجے ہیں ولایت کے مگر ان سب کا مرکزی منبع تاجدارِ ولایت ہی ہیں۔بابا جی واصف علی واصف اس راز کا اعلان یوں کرتے ہیں: میں خبر کے دام کا دام ہوں میں خِرد کدے کا امام ہوں میں علیؑ ولی کا غلام ہوں اسی تاجدار کی بات ہوں میرا نام وآصف با صفا میرا پیر سید مرتضیٰؑ میرا ورد احمدِ مجتبیٰ میں سدا بہار کی بات ہوں