نذیر ناجی صاحب۔۔اساتذہ کے بھی استاد تھے۔اردو کالم نگاری کے وہ جید استاد جن کے ہم عصر بھی باکمال تھے اور ہیں بھی۔عباس اطہر سے منو بھائی تک اور نذیر ناجی صاحب سے اب تک صرف چند ہی بڑے نام وہ جن کے خیال میں گہرائی مگر جملہ اتنا سادہ کہ دِل اش اش کر اُٹھے۔جب انہیں کوئی طعنہ دیتا کہ آپ آٹھویں پاس ہیں تو وہ مسکرا کر کہتے "یہ بھی ایک تہمت ہے میں تو اس سے بھی کم تک پڑھا ہوا ہوں"۔میں سیاسیات کا طالبعلم ہوں۔تمام عمر یہ پڑھائی اور یہاں تک ڈاکٹریٹ بھی کر ڈالی مگر ناجی صاحب کی ملکی اور عالمی سیاست پر گرفت باکمال تھی اور اسے پھر ملکی سیاست سےRelateکرنا۔ان کے کالم کو،اندازِ تحریر کو،ملفوف طنز کو پہروں انجوائے کرتا۔2001ء کی بات ہے میں اور میرے قریبی دوست امجد وڑائچ پنجاب یونیورسٹی ایم فِل میں کلاس فیلو تھے۔ان کا سیاسی تجزیہ سب سے بڑے انگریزی روزنامے کے فرنٹ پیج پر ہوتا تھا۔ہماری استاد کا نام ڈاکٹر ارم خالد تھاجو آج کل شعبۂ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی کی چیئر پرسن ہیں۔ایک دن وہ سب کوAssignmentsدے رہیں تھیں۔مجھے جو موضوع ملا وہ سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔سوال تھا۔۔۔کیا پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ضمانت دیتا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان توازنِ طاقت کی؟آسان انگریزی ترجمہ یہی بنتا ہے۔یونیورسٹی کی لائبریری سے ڈیپارٹمنٹ کے کتب خانے تک سب جگہ تلاشا مگر بات نہ بنی۔تھک کر چائے منگوائی اور پیتے ہوئے اخبارات کی فائل پر نظر پڑی۔انگریزی اخبارات سے شروع کیا اور پھر ایک کالم پر نظر رُک گئی۔اردو میں خارجہ پالیسی پر اور عالمی تعلقات پر لکھنے والے آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔نذیر ناجی صاحب کا کالم پاک بھارت تعلقات پر تھا۔اُسی موضوع پر جس پر مجھے Assignment بنانا تھی۔مشکل ترین موضوع کو عظیم کالمسٹ نے اتنی صراحت اور آسانی سے بیان کیا تھا کہ مت پوچھ۔خوشگوار حیرت نے لپیٹ میں لے لیا۔کالم کی فوٹو کاپی لارج کر کے کروائی۔پیرا گراف بنائے۔انہیں انگریزی متن کا رنگ روپ دیا،سرخیاں بنائیں اور بات بن گئی۔بات یاداشت میں جم سی گئی۔پھر ناجی صاحب سے ملاقات ہوئی تو گوش گزار کی،شکریہ بھی اد اکیا۔شفقت بھری مسکراہٹ سے سنتے رہے۔پھر جب اپنے ٹی وی پروگرام کے لیے ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو اور بھی بہت کچھ سیکھا۔ FCکالج اب امریکہ کی چارٹرڈ یونیورسٹی ہے۔کسی زمانے میں اس کا شعبۂ سیاسیات بڑا دانشورانہ ہوتا تھا۔میں یہاں طالبعلم بھی رہا اورInternational Relations پڑھانے کا اعزاز بھی ملا۔اس شعبے کے ایک ہیڈ ہوا کرتے تھے،ڈاکٹر شفقت۔ناجی صاحب ایک دفعہ IRپر ایک کتاب ان سے مستعار لے گئے۔کتاب ڈاکٹر صاحب کے نام پر ایشو کی گئی۔جب کتاب کو ایشو کروائے مقررہ وقت سے زیادہ عرصہ بیت گیا تو ڈاکٹر صاحب کو لائبریرین نے یاد دلایا۔ڈاکٹر صاحب ناجی صاحب کے گھر واقع ساندہ روڈ جا پہنچے۔ناجی صاحب نے واپسی میں تاخیر کی معذرت چاہی اور کتاب واپس کر دی۔ڈاکٹر صاحب نے یہ دیکھنے کے لیے کہ ناجی صاحب نے اسے کس طرح پڑھا ہو گاکتاب کھو لی تو حیران رہ گئے۔IRکی تمام مشکل اصطلاحات کے اردو ترجمے حاشیوں میں لکھے ہوئے تھے۔اتنی محنت اور مشقت علم حاصل کرنے کے لیے صرف ناجی صاحب ہی کر سکتے تھے۔ڈاکٹر شفقت یہ واقع اپنے جونیئرز کو سناتے تھے کہ کتاب کا عرق ایسے کشید کیا جاتا ہے۔حضرتِ غازی ضیا ء الحق کے جبر کا سورج اپنے نصف النہار پر تھا۔ناجی صاحب مسلسل بے روزگاری کے عذاب سے گزر رہے تھے۔مگر بھٹو کی محبت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے۔ان دنوں وہ دیال سنگھ مینشن میں واقع شیزان ہوٹل میں صحافی دوستوں کے ہمراہ زیادہ وقت گزارا کرتے تھے۔بچے بھی تھے،کرائے کا گھر بھی،گھر کا کرایہ بھی اور کچن بھی۔دوستوں سے مسلسل قرض لیتے رہے مگر نظریاتی محاذ پر ڈٹے رہے۔اس دور کے تلخ تجربات نے بعد میں آنے والے ادوار میں اُن کا نظریۂ زندگی بدل دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انہیں جب پلاٹ ملا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ کیا پاکستان کے ہر بے گھر شہری کو پلاٹ مل چکا ہے؟ ضیاء دور میں کچھ صحافیوں کی گولڈن لاٹری نکل آئی۔ضیاء الحق نے دائیں بازو کے صحافیوں کی ایک پوری نرسری لگائی۔نئے گملے ،نئے پودے،نئے پھول اور نئی سبزیاں اور کھاد خاکی اور سبز رنگ کی۔نذیر ناجی اور اُن کے قبیلے کے اور لوگ جن میں حسین نقی،عباس اطہر،حسن نثار،تنویر شفقت سب نے سب کچھ بھگتا۔ اُن دنوں پنجاب کا ایک نوجوان سیاست میں انٹری کے لیے پر تول رہا تھا۔اگرچہ دائیں بازو کے صحافیوں کی ایک پوری کھیپ تھی جو جانثارانِ ضیاء الحق تھے۔استادِ محترم اطہر ندیم صاحب اس عہد کے چشم دید گواہ تھے۔اُن کے مطابق نوجوان سیاست دان کو ایک اتالیق کی ضرورت تھی۔ناجی صاحب جیسا دانشور صحافی زندگی کے جبرِ تسلسل سے اُکتا چکا تھا۔حنیف رامے صاحب سیاست دان بھی تھے ،انٹلیکچوئل بھی اور خوبصورت فنکار بھی۔وہ ناجی صاحب کے معاشی حالات اور ابھرتے ہوئے سیاستدان کی ذہنی ضرورتوں سے کما حقہُ آگاہ تھے۔حنیف رامے صاحب نے دونوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا۔باقی سب تاریخ ہے۔مگر یہ کہ جب بینظیر1986ء میں پاکستان آئیں تو الیکشن سے پہلے ناجی صاحب کراچی گئے اور محترمہ سے دو یا تین ملاقاتیں بھی کیں۔مگر انہیں محسوس ہوا کہ یہ پارٹی اب بھٹو والی نہیں اور اُن کے لیے یہاں پر سپیس نہیں ہے۔پھر ناجی صاحب نے ایک نیا سفر شروع کیا۔دائیں رحجان کے ایک روزنامے کے صفحہ2 پر کالم کا سفر۔الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا۔صبح سویرے اُٹھ کر قاری اخبار کی طرف لپکتا کہ"سویرے سویرے "میںناجی صاحب نے کیا لکھا ہے۔انقلابی ناجی صاحب۔۔پریکٹیکل ناجی صاحب بن گئے۔وہ کامریڈ سے روایت پسند ہو گئے۔اُن کے پرانے دوست،ساتھی صحافی اور جونیئرز جب انہیں ذاتی زندگی میں یہ یاد دلاتے تو وہ جواب نہ دیتے مگر اُن کے چہرے پر لکھا ہوتا۔۔نظریے کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے،وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔جب تک پرنٹ جرنلزم اور اردو کالم نگاری رہے گی ناجی صاحب اور اُن جیسے بہت سے خوبصورت قلمکار نئے آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ رہیں گے۔