ہمارے ہاں تعلیم کی صورتحال اتنی ہی خراب ہے جتنی ہمارے اور معاملات کی ہے۔ ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ سکول جائے، تعلیم حاصل کرے۔ تعلیم آئین کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر وہ اور کون سی ذمہ داریاں پہلے پوری کرتی ہے جو یہ کرسکے۔ ٹیکس نہ دینے والوں کی یہ بھی ایک دلیل ہے۔ بات ہو رہی ہے تعلیم کی، ہمارے ہاں، بہت سے تعلیمی نظام ہیں مگر آسانی کے لیے اُسے تین حصوں میں بانٹ لیتے ہیں۔ سرکاری سکول، پرائیویٹ سکول اور مدرسہ سسٹم۔ آپ ایک ہی ملک اور سماج کے بچوں کو ابتداء ہی سے تین حصوں میں بانٹ رہے ہیں۔ دِل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، یہ سب آگے جا کر جب عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے؟ ان کے افکار ،نظریات، رویے اور دیکھنے کی عینک کا نمبر تو ٹین ایج میں ہی طے پاجائے گا ۔ یہاں تک کہ اُن کی باڈی لینگویج ،چال ڈھال اور انداز گفتگو بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھائے گا۔ آپ نے اکثر ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دیکھے ہوں گے جو بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیںیا پڑھ چکے ہیں۔ کچھ اچھے گریڈ بھی لے لیتے ہیں، کچھ سی ایس ایس کرکے بڑے افسر بھی بن جاتے ہیں۔ کچھ دانشوری اور پروفیسری کا شغل بھی کرتے ہیں مگر ابتدائی زندگی، سوشل سیٹ اپ اور نفسیاتی Complexes تمام عمر اُن کے ساتھ چلتے ہیں۔ چلتے کیا ہیں بلند آواز میں بولے بغیر اپنے مالک کا تعارف کرواتے ہیں۔ کئی بیچارے گلیمرکا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ کچھ کے career میں معاشی احساس کمتری اتنا گہرا گُندھا ہوتا ہے کہ وہ جہاں، جس جگہ پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اُن کے چہرے سے بدن بولی تک اپنی ابتدائی تعلیم اور تربیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔ ایک امریکی اُستاد تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ اُن کا لہجہ ہی نہیںمتاثر کرنے اور متاثر ہونے کا پیمانہ بھی بدل جاتاہے۔ تعلیم کا مقصد کیاہے؟ یہ جاننا کسی کے لیے ضروری نہیںاور شاید نہ ہی کوئی اِسے جاننا چاہتا ہے۔ ایک اندھی دوڑ ہے۔۔۔ کیا ان تینوں اقسام کے سکولوں میں پڑھ کر کوئی ایک مفید شہری بن سکتا ہے؟ آج کے سِکہ رائج الوقت میں کامیابی سے مراد ۔۔ یہ نہیں کہ سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا ۔۔ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔۔ نہیں ہے۔ بلکہ کامیابی سے مُراد صرف اچھی ملازمت کا حصول ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی میں خود کفیل ہونا ہے۔ سکول کے بعد اعلیٰ تعلیم یا ہائر ایجوکیشن کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایک تقسیم ہے۔ سرکاری جامعات اور پرائیویٹ جامعات۔۔۔ نان پرافٹ جامعات اس لیے نہیں ڈال رہا کہ نان پرافٹ بنا مِ تعلیم کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہت سے اِداروں کا ذکر سنا اور پڑھا، مگر سُنا کچھ اور تھا، دیکھا تو کچھ اور تھا ۔۔والی بات ہے۔ ہر حکومت میں کچھ طاقتور سیاسی لوگ نئی یونیورسٹیوں کا چارٹر دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ فی الحال صرف پبلک پرائیویٹ جامعات کا حال۔۔ طالب علموں اور اساتذہ کی بات کر تے ہیں۔ سرکاری جامعات میں کوٹہ سسٹم ہے۔ ایک خاص مکتبہ فکر کی آئیڈیالوجی ہے۔ اساتذہ بھی سیاست میں سر سے پائوں تک الجھے اور پھنسے ہوتے ہیں۔ سرکاری وائس چانسلر نے تمام اہم لوگوں سے اپنے تعلقات کا جال بچھایا ہوتا ہے۔ یہ فلاں پارٹی کا سرپرست اعلیٰ ہے۔ یہ بیوروکریٹ اہم پوسٹ پر آنے والا ہے۔ پھر یہ من پسند لوگوں کو مختلف سیمینارز اور مباحث میں مہمان خصوصی بناتے ہیں۔ وہاں جو گفتگو ہوتی ہے اس کا معیار، اسی فیصد وہی ہوتا ہے جو ہمارے سماج کا ہے یا اسکے جعلی دانشوروں کا۔ پرائیویٹ یونیورسٹی کا وائس چانسلر پی ایچ ڈی ڈاکٹر تو ہو سکتا ہے مگر خوشامد کی Chainیہاں بھی لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرز پر ہوتی ہے۔ سیاست اور جمہوریت ہمارا قومی سرمایہ سہی مگر جامعات کی سیاست ؟ الایمان والحفیظ۔ اب وہ طالب علم جو پہلے ہی گلے سڑے سکول سسٹم سے نکل کر آیا ہے اُسے قابل رحم اعلی تعلیم کے ماحول سے راہنمائی اور آشنائی ملے گی۔ اُسکا کیا حال ہو سکتا ہے؟ ڈگری ، گریڈ، GPA اور ملازمت۔ آپ اس ماحول میں خود جائیں، کچھ عرصہ Live کریں ۔ اٹوٹ رشتہ ہے خوشامد ۔۔ خدمت اور GPA کا۔ آج کی پاکستانی جامعات جو طالب علم تیار کرکے سوسائٹی میں بھیجتی ہیں، اُنہیں نوکری کیوں نہیں ملتی؟ جی اُن کی ڈگریوں میں اور عملی زندگی میں مین پاور کی ڈیمانڈ میں کوئی تال میل ہی نہیں ہوتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آج کا طالب علم سمجھتا ہے کہ وہ اچھا انسان ہو نہ ہو ، اُسے ڈگری اور اچھے GPA کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارا تعلیمی نظام اچھے شہری اور اچھے انسان بناتا ہے؟ جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ غریب اور ان پڑھ والدین جب اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے چھوٹے بچوں کو کچے پکے سکولوں میں بھیجتے ہیں تو مجھے پرانی پنجابی فلم کا ایک گانا یاد آجاتا ہے۔ جدوں پڑھ لکھ کہ توں بھائو بن جانا مُکنا اے اودھوں ساڈے دُکھاں دا افسانہ مگر دکھوں کا یہ فسانہ ۔۔۔ فسانے سے ناول بن جاتا ہے۔ مگر درد کا یہ سفر کبھی نا تمام نہیں ہوتا۔ دائروں کا سفر ہے ۔ نہ حکومت کو پرواہ ہے، نہ ریاست کو۔ان کو اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات ۔۔ اس بنا پر فکر قوم کیا کریں؟ یہ دائروں کا سفر لاحاصل سفر ہے ۔ وقت کو بھی کھا رہا ہے اور ہمارے قلوب اور اذہان کو بھی بنام تعلیم ۔ طالب علم ، استاد اور یونیورسٹیاں سبھی ایسے راستہ بنا رہے ہیں جیسے کسی پرہجوم سڑک پر موٹر سائیکل سوار۔