سیاست اب بھی دائروں ہی میں گھوم رہی ہے ۔ پاکستان کے سیاست دانوں نے ،اداروں نے اور فیصلہ سازوں نے بار بار کے تجربے اور ان کے نتائج سے کچھ نہیں سیکھا ۔ کھیل کے وہی انداز پرانے بساط سیاست پر وہی چالیں پرانی پھر آزمائی جارہی ہیں۔کسے راستے سے ہٹانا ہے اور کسے راستہ دینا ہے ۔کس کی مقبولیت کو خاطر میں نہیں لانا ہے اور کسے قبولیت کے شرف سے نوازنا ہے۔ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہورہا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر پر سارے نقوش وا ضح ہیں ۔ آئندہ انتخابات جنوری میں ہونا ہیں۔ سیاسی اور انتظامی معاملات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں وہ جمہوری سیاسی عمل پر سوالیہ نشان ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے پاکستا ن تحریک انصاف میں جس طرح ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کے لئے جس طرح مشکلات پیدا ہوئی ہیں اس سے سیاسی ماحول میں کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی اس پر مستزادمسلم لیگ نواز کے لئے جس طرح معاملات درست کئے جارہے ہیںاور اس کے لئے فضا سازگار کی جارہی ہے اس سے انتخابات کا سارا عمل اور اس میں عوام کی شرکت ایک بے معنی مشق کے سوا اور کیا رہ جائے گی ۔ نواز شریف کا سزا یافتہ ہونا، علاج کے لئے ضمانت پر دو ہفتوں کے لئے لندن جانا اور پھر وہاں چار سال قیام کرنا اور اب پورے پروٹوکول اور طمطراق کے ساتھ ان کا واپس آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے سیاسی راستے کے سارے کانٹے چن لئے گئے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت جس طرح پورے تیقن کے ساتھ انہیں چوتھی بار وزیر اعظم دیکھ رہی ہے اس سے تو یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ سب کچھ طے ہو چکا ہے۔ نواز شریف تین بار وزارت عظمی کا منصب سنبھال چکے ہیںوہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح اور کتنا اقتدار ملتا رہا ہے ۔ ہر بار وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات بنتے بگڑتے رہے ہیں۔ان کی حمایت اور مخالفت ہر دو کا انہیں پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے زیادہ تجربہ ہے ۔ وہ اپنے تمام تر تلخ تجربات کے باوجود ایک بار پھر اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جہاںٹھوکریں پہلے بھی ان کا مقدر بنی تھیں۔ نواز شریف سمیت پاکستان کے تمام سیاست دان عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ؟ جب تک سیاستدان عوام کی طاقت کو اہمیت نہیں دینگے نہ تو جمہوری سیاسی عمل مستحکم ہو سکے گا اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی نظام میں سیاستدانوں کی حیثیت مضبوط ہوگی ۔یہ بات تو طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں ہمیشہ کمزور اور غیر معتبر ثابت ہوئی ہیں صرف عوام کی طاقت پرہی سیاست دانوں کو بھروسہ کرنا چاہیئے۔ مگر سیاست دان ہر بار اقتدار کے لئے فریب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ سیاسی اداروں کی ساکھ عوام کی طاقت اور اس کی پشت پناہی سے ہی ممکن ہے۔سیاسی ادارے مضبوط ہونگے تو انہیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا موقع ملے گا اور ان کی عوامی حمایت کی بنیاد وسیع اور مستحکم ہوگی اور وہ اس غیر یقینی کیفیت سے بھی نکل آئینگے جواقتدار میں آکر انہیں ہمیشہ درپیش رہتی ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سیاسی اور انتظامی معاملات میں ہمیشہ ہی اثرانداز ہوتی رہی ہے لیکن 2016 ء کے بعد سے سیاست میں جو بگاڑ پیدا ہوا اس نے سیاسی اداروں اورسیاست دانوں کے وقار اور اعتبار کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ عمران کی عوامی مقبولیت کا تاثر اپنی جگہ درست مگر وہ بھی اپنی حکومت کے قیام اور اس کے تسلسل کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے رہین منت نظر آئے۔ اپنے اس زعم میں انہوں نے ایسے فیصلے بھی کئے جن سے جمہوری سیاسی عمل کو نقصان پہنچا۔ اپنے چار سال سے بھی کم عرصہ حکومت کے دوران وہ سیاسی سطح پر دوست کم اور دشمن زیادہ بنا پائے ۔ وہ بتدریج سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے چلے گئے اور جب اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات درست نہ رہ سکے تو اقتدار ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی اور معاشی حالات میں پھر وہی سیاسی کھیل اور اس کا وہی انداز اختیار کیا جارہا ہے ۔ ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور ایک کے لئے راستہ آسان کیا جا رہا ہے جیسا کہ 2018 کے انتخابات کے وقت دیکھنے میں آیا جب مسلم لیگ کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں اور تحریک انصاف کے لئے آسانیاں ۔ ا یسا کرنے سے کیا اب کچھ نیا ہو جائے گا۔ داخلی سلامتی کو جوخطرات درپیش ہیں کیا وہ کم ہو جائینگے ، اقوام عالم میں ریاست کی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ بہتر ہو جائے گی،معیشت سنور جائے گی ،لوگوں کی مشکلات کم ہوجائینگی ۔ ادارے مضبوط اور مستحکم ہو جائینگے،آئین کی حکمرانی کا راستہ ہموار ہو جائیگا ؟ سوال بہت سارے ہیں کچھ زباں پر آجاتے ہیں اور کچھ سوچنے والے ذہنوں کے لئے لاوابنے رہتے ہیں۔ تلخ سچائی یہی ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی تو معاملات کا بہتر ہونا ممکن نہیں۔جمہوری عمل کو جمہور سے الگ رکھ کر حکومت بنانے اور بگاڑنے کے معاملات سے ا سٹیبلشمنٹ کی علیحدگی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس مرحلہ پر تمام فعال قوتوں کو احتیاط اور دانائی کی ضرورت ہے ۔وقتی مفادات ،ذاتی انا،اور انتقام کی روش نے نہ صرف سیاسی نظام بلکہ ریاست اور اس کی عوام کو بھی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔زمینی حقائق کے مطابق فیصلے ہی آگے بڑھنے کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ خواہشات ،تعصبات اور پسند و ناپسند ریاستی امور کی بہتری میں سب سے بڑی رکاو ٹ ہیں انہیں اب دور ہونا چاہیئے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا ایک اجمالی جائزہ ہی اس بات کی صداقت کے لئے کافی ہے کہ اس طرز حکمرانی سے خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہیںہوا ہے۔سیاسی ادارے ہوں یا ریاستی ادارے سب اپنی ڈگر سے ہٹ چکے ہیں ۔اعتبار کھو چکے ہیں ۔تدبر ، تحمل ، دور اندیشی اور عوامی طاقت پر بھروسے کی جس قدر ریاست کو آج ضرورت ہے اس سے پہلے شائد کبھی نہیں رہی ۔گزشتہ پانچ سالوں میں یہ خسارہ اپنی انتہائی سطح پر پہنچ گیا ہے۔آئین کی جس قدر پامالی ، اداراتی انتشار اور مخاصمت اس دور میں بڑھی ہے اس نے پورے سماج کو ہیجان اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تمام مشکلات سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے آئین پر دیانت داری سے عمل کرنا ۔تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر ہی معتبراور موئثر ہو سکتے ہیں۔ ریاست کا نظام اور انتظام آئین کے مطابق طے کیا جانا اب ضروری ہو گیا ہے۔اس سے انحراف جب بھی کیا جائے گا مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ ریاستوں کی سیاسی ترقی اور استحکام کا راستہ آئین طے کرتا ہے ۔سیاسی استحکام سے ہی معاشی اور سماجی ترقی کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس ضمن میں سیاست دانوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایک جمہوری سیاسی نظام میں سیاست دان ہی جوابدہ ہوتے ہیں ۔اس نظام کی موجودگی میں کارکردگی کا سارا بوجھ انہیںہی اٹھانا ہوتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ اس طرح کے سیاسی نظام میں تمام تر رسوخ کے باوجود جواب دہی سے مبرا رہتی ہے ۔ جب سیاستدانوں کو عوامی احتسا ب کے کٹہرے میں تنہا ہی کھڑا ہونا ہے تو پھر اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا کیوں ؟ یہ بات پاکستان کے تمام ہی سیاستدانوں کو بالعموم اور نواز شریف کو بالخصوص سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے اگر وہ سمجھیں تو !!