’’غزہ اور اسرائیل کی جنگ چھڑنے کے بعد لوگوں میں اضطراب اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بے چینی اور دکھ ہر مذہب کے لوگوں میں پھیل چکا ہے۔‘‘ عباس اپنے مصری دوست کریم سے بات کر رہا تھا۔ ’’یار اس اہندوناک جارحیت کو شروع ہوئے بہت سے دن گزر گئے اور اس دوران غزہ کی محصور آبادی پر اسرائیل کی فضائی فوج کم از کم چھے ہزار سے زائد بم گرا چکی ہے۔‘‘ اس دوران وہاں زلیخا اور امل بھی آ گئی۔ ابھی وہ بیٹھی ہی تھیں کہ لیلیٰ زارو قطار روتی ہوئی آ گئی۔ ’’کیا ہوا لیلیٰ خیریت ہے۔‘‘ زلیخا نے پوچھا وہ بولی جانتی ہو ہماری پیاری دوست حِبا کمال ابْوندا مر گئی ہے۔ اس نے اپنے آخری ٹویٹ میں لکھا تھا: ’’غزہ کی اندھیری رات میں صرف راکٹوں کی روشنی ہوتی ہے،بموں کی آوازوں کے باوجود، خوف میں لپٹی دعاؤں سے جْدا، اندھیرے رستے میں شہدا کے چمکتے ستاروں کی روشنی کے باوجود پورے غزہ میں اندھیرا چھا چکا ہے۔ شب بخیر غزہ!‘‘ اسے کیا پتہ تھا کہ اس اندھیری رات میں وہ بھی شہید ہو کر ستارہ بن کر آسمانوں میں چمکنے لگی گی۔ کریم بھی باقیوں کی طرح لندن پڑھنے آیا تھا۔ کہنے لگا! مجھے حبا کے بارے میں مزید بتاؤ۔ امل بولی مرنے سے پہلے اس نے اپنے قلم سے لکھا تھا: ’’ہم فلسطینی ابتری کی ناقابلِ بیان حالت میں بھی اپنے اندر ایک روحانی مسرت محسوس کرتے ہیں۔ ہم اپنی مشکلات سے بازیاب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یاد رکھو! اسی ملبے کے بیچوں بیچ ایک نیا شہر اْبھرے گا۔ ہواؤں میں نہتے لوگوں کے درد کی چیخیں گونجتی رہیں گی ڈاکٹروں کے کپڑوں پر ان کے معصوم خون کے دھبوں کی صورت میں۔ اْستاد تکلیفوں کے باوجود اپنے ننھے طلبا کو گلے لگاتے رہیں گے جبکہ کْنبے نحوست اور بد بختی کے چہرے پر دلیری اور آزادی کا غیر متزلزل رنگ چڑھاتے رہیں گے۔‘‘ حِبا نے 2016 ء میں اپنے ناول ’’آکسیجن مردوں کے لیے نہیں ہے‘‘ پر شارجہ تخلیقی ایوارڈ ملا تھا۔ حِبا ابوندا کو مغربی غزہ کے شہر خان یونس میں پناہ گزینوں کے کیمپ پر بم گرا کر شہید کر دیا گیا۔ وہ 1991 میں مکہ میں پیدا ہوئی۔ غزہ اسلامک یونیورسٹی سے بائیو کیمسٹری میں گریجوایشن اور کلینیکل غذائیت میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ عباس کہنے لگا: ’’جانتے ہو کریم وہ فلسطینی ادبی حلقے کی لاڈلی تھی۔ اس کے آخری الفاظ سْنہرے الفاظ میں لکھے جائیں گے۔ اگر ہم مر گئے۔۔۔ تو سمجھ لینا ہم ثابت قدم تھے! اور ہمارے پیچھے رہ جانے والوں کو بتانا کہ ہم راہِ حق کے مْسافر تھے۔۔۔ ’’ہائے! کتنے شکستہ مگر پْختہ الفاظ تھے حِبا کے۔‘‘ کریم کہنے لگا۔ یہ جنگ بہت ہی وحشیانہ رْخ اختیار کر چْکی ہے۔ اس جنگ کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔‘‘ زلیخا کہنے لگی کہ: ’’مشرقِ وسطیٰ قدرتی توانائی کا وہ صدر مقام ہے جو دنیا بھر کے لیے اہم ترین خطہ ہے۔ جس کی کشیدگی سے توانائی کی عالمی قیمتیں بھی متاثر ہوں گی۔‘‘ امل نے بتایا کہ حِبا کو اپنے کمرے میں سجی کتابوں سے بہت عشق تھا۔ شاید وہ پناہ گزین کیمپ میں اپنی پسندیدہ کتابیں بھی لے گئی ہو۔ زلیخا بتانے لگی کہ اس کی امّی کہتی تھیں کہ 1967 کی اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں رات ہوتی تو لگتا تھا جیسے غم کا دْھواں چھا گیا ہے۔ گھروں کے اوپر سے اْڑتے جنگی جہازوں کی آوازیں ہمارے دلوں کو دہلا دیتی تھیں۔ تب بھی اقوامِ متحدہ کی بے حسی دیکھ کر لگتا تھا دنیا میں امن قائم کرنے کا نظام ناکام ہو چکا ہے۔‘‘ کریم بولا: ’’ہمیں تو اس جدید زمانے میں بھی سب بے بس نظر آتے ہیں۔ فلسطینیوں پر مسلسل حملے ان کی نسل کْشی کا شاخسانہ ہے۔ وہاں غذائی اور طبی امداد کی بھی قلت ہے۔ پوری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ غزہ کو سِیل کر کے فلسطینیوں کو ذبح ہونے کو چھوڑ دیا گیا۔‘‘ پتہ ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فلسطین پر غیر قانونی حملوں میں پورے پورے خاندانوں اور رہائشی گلیوں کو برباد کر دیا ہے۔‘‘ عباس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ کہنے لگا: ’’دنیا اسرائیل کے ظلم سے واقف ضرور ہے مگر چند عالمی طاقتیں اس کے ساتھ ہیں۔ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں مگر پرانے حملوں کے خون کے دھبے دھلتے نہیں کہ اگلے بم عمارتوں پر گرنے لگتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، اَو۔ آئی۔ سی اور مغرب کی انسان دوست تنظیمیں کب مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل کے نا جائز ظلم سے بچانے کے لیے آگے بڑھیں گی۔‘‘ لیلیٰ کے آباؤ اجدد عیسائی فلسطینی تھے۔ وہ بتانے لگی: ’’پہلی جنگِ عظیم کے بعد فلسطین پر سلطنتِ عثمانیہ کا کنٹرول تھا۔ تب مسلمان اکثریت میں یہودی اور عیسائی اقلیت میں تھے۔ جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹی تو فلسطین برطانیہ کے پاس اور باقی علاقے فرانس کے پاس چلے گئے۔‘‘ زلیخا پوچھنے لگی پھر کیا ہوا؟ لیلیٰ بولی: ’’جب برطانیہ نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ان کا علاقہ مخصوص کیا تو عربوں اور یہودیوں کے بیچ چھوٹے چھوٹے تنازعات ہونے لگے۔ برطانیہ میں اس وقت وہ صیہونی تحریک زور پکڑ چکی تھی جو کہتی تھی یہودیت ایک مذہب نہیں بلکہ ایک قوم ہے جس کی اپنی ریاست ہونی چاہیئے۔ وہیں سے وطن کی لڑائی شروع ہوئی۔‘‘ عباس نے بتایا: ’’1920 میں یورپ سے بڑی تعداد میں یہودی فلسطین آبسے۔ جب فلسطینی عرب مسلمان اور یورپی سیٹلر یہودی لڑنے لگے تو اقوامِ متحدہ نے اس زمین کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کر دیا جبکہ یروشلم یعنی بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر بنا دیا۔‘‘ امل نے بتایا: ’’1948میں جب اسرائیل بنا تو اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا کیونکہ انہوں نے اس تقسیم کو برطانوی نو آبادیاتی نظام کے طور پر دیکھا۔ اس جنگ کو النکبہ کہتے ہیں۔ اس سے اسرائیل نے سوائے غزہ اور ویسٹ بنک کے سارے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ پھر دو اور جنگیں ہوئیں۔ 2007 میں حماس نے غزہ کا اقتدار سنبھالا۔ اب تک اسرائیل کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں۔‘‘ حِبا ہم شرمندہ ہیں! تمہیں بچا نہیں سکے۔ تم اپنے خوابوں کی چاندنی حاصل کرنے ساتویں آسمان پر چلی گئی ہو۔ جہاں پیار ہی پیار ہے!