اپنے پچھلے کالم میں سیاسی لیڈروں کے بے بنیاد اور بلند وبانگ دعووں پر تنقید کی تھی۔دراصل ن لیگ کے اہم رہنمامریم نواز اور حمزہ شہباز نے اپنی تقریروں میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر تین سو یونٹ بجلی مفت دیں گے۔ یہی بات ان سے پہلے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے جلسوں میں کہی۔ بلاول یہ دعویٰ مسلسل کر رہے ہیں بلکہ اب تو ان کی ہمشیرہ آصفہ باقاعدہ جلسوں میں یہ تقریر کرر ہی ہیں کہ اگر بجلی کے تین سو یونٹ مفت لینے ہیں تو پھر تیر کے نشان پر مہر لگائیں۔ بلاول بھٹو کے ان دعووں پر تنقید ہوئی ہے تو پھر پیپلزپارٹی کے دیگر رہنمائوں کی جانب سے اس کا دفاع شروع ہوا ہے۔ سعید غنی نے بھی اس کی توجیہہ اور تاویل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی پی پی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ دراصل اس کے لئے ایک پورا منصوبہ ہم نے تیار کر رکھا ہے، تھر کے کوئلے سے سستی بجلی پیدا کر کے اور سولر ، ونڈ ملز کے حوالے سے نئے منصوبے بنا کر اور سولر میں عوامی معاونت کر کے ہم اتنی سستی بجلی پیدا کر لیں گے جس سے یہ یونٹ مفت دئیے جا سکیں۔ یہ بات ابھی تک مبہم اور ناقابل عمل ہے کیونکہ تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کی تعداد دو کروڑ تک ہے، اتنی بڑی آبادی کو کوئی ریلیف دینے کا مقصد ہے کم سے کم بھی ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی ۔ اس وقت تو یہ تقریباً ناممکن ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بنکوں کے ذریعے کوئی آسان قرضہ سکیم سولر کے حوالے سے دی جائے، اس پر بھی آئی ایم ایف قدغن لگا دے گا کیونکہ انٹرسٹ ریٹ اتنا زیادہ ہے کہ آسان قرضہ دینے کی کوئی سکیم عالمی مالیاتی ادارے سے اپروو ہی نہیں ہوگی۔ سولر پاور کے حوالے سے ایک اچھی تجویز ہمارے دوست اور قابل انجینئر جناب ظفر اقبال وٹو نے دی ہے۔ وٹو صاحب کی بعض تجاویز پہلے بھی ہم اپنے قارئین سے شیئر کر چکے ہیں ۔ ظفر اقبا ل وٹو ون مین آرمی سمجھ لیں۔ وہ بنیادی طور پر کنسلٹنٹ انجینئر ہیں اور واٹر ریسورس سپیشلسٹ ہیں۔ دو سال پہلے ڈیمز کے حوالے سے انہیں ایک قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں : اگر پاکستان کی نہروں کی صرف 10 فیصد لمبائی پر ہی سولر پینل لگاکر بجلی پیدا کی جائے تو سالانہ 10 ارب یونٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔نہر کے ہر ایک کلومیٹر کے اوپرایک میگا واٹ کیپیسٹی کے سولر پینل لگ سکتے ہیں۔ یہ سولر پینل نہ صرف بجلی پیدا کرتے ہیں بلکہ نہروں کے پانی کو بخارات بن کر اْڑنے سے بھی بچاتے ہیں اور ان سولر پینلز کو لگانے کے لئے علیحدہ سے زمین بھی نہیں خریدنا پڑتی۔ ہندوستان اپنی نہروں کے اوپرسو میگاواٹ تک کیپیسٹی کے سولر پینل لگا کر بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اس سلسلے کا سب سے پہلاایک میگا واٹ کیپیسٹی کا پراجیکٹ ریاست گجرات کے گاؤں چندرساں میں ہوا تھا۔ گجرات میں اب تک پینتیس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے سولر پینل نہروں کے اوپر لگ چکے ہیں۔ بھارتی پنجاب بیس میگاواٹ تک بجلی نہروں کے اوپر سولر پینل لگا کر پیدا کررہا ہے۔یاد رہے کہ چین اور انڈونیشیا تو سمندر کی سطح کے اوپر بھی سولر پینلز لگا کر بہت بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں تو ویسے بھی سال میں 300 دن سے زیادہ سورج نکلتا ہے اور اوسطاً 8-10 گھنٹے روشنی ہوتی ہے۔ تو دیر کس بات کی ہے؟ ‘‘ انجینئر ظفر اقبال وٹو کی تجویز اچھی ہے ۔ نہروں ، پہاڑی نالوںوغیرہ پر مائیکرو ہائیڈرو ڈیمز بنانے کے حوالے سے کچھ کام ہوا بھی ہے، خاص کر آزاد کشمیر اور کے پی میں ایسے کئی پراجیکٹ چل رہے، بعض مکمل بھی ہوگئے۔ نہروں پر سولر پینل لگانے کا آئیڈیا خوب ہے۔ میلوں لمبی نہریں ہیں، ان کے اوپر سول پینل لگا دئیے جائیں ، بجلی پیدا ہوتی رہے گی۔ زیادہ سے زیادہ ان کی حفاظت کا مسئلہ آئے گا کہ ہمارے ہاں ہر چیز چوری ہوجاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے دیہات میں متعلقہ گائوں والوں کی ذمہ داری لگائی جائے جبکہ شہروں میں کیمروں اور چند ایک گارڈز کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس سے ہونے والے فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ تھوڑی بہت مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو نے ایک اور اچھی اور دلچسپ تجویز پیش کی ہے۔ میرے لئے تو یہ نئی بات ہے، ممکن ہے قارئین میں سے کچھ اسے پہلے سے جانتے ہیں۔ ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں : ’’کیا آپ یقین کریں گے کہ شمسی توانائی سے رات کوبھی بجلی بنانا ممکن ہے۔سولر پینلز پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو براہِ راست بجلی پیدا ہوتی ہے اور یہ سورج کے بغیر بجلی نہیں پیدا کرسکتے لیکن مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ کی مدد سے دن اور رات کے کسی بھی وقت بجلی بنانا ممکن ہے جس کا پاکستان میں بے انتہا پوٹینشیئل ہے۔ ’’ کہا جاتا ہے کہ 212 قبل مسیح میں ارشمیدس نے ایک بہت بڑے آئینے سے سورج کی روشنی کو حملہ آور رومن بحری بیڑے پر مرتکز کرکے اسے آگ لگا کر سیرا کیوز (Syracuse) شہر سے پسپائی پر مجبور کردیا تھا۔ اس افسانے کی سچائی کو چانچنے کے لئے کہ کیا واقعی ارشمیدس ایک آئینے کی طاقت سے رومی بحری بیڑے کو تباہ کر سکتا تھا، سنہ 1973 میں ایک متجسس یونانی سائنسدان ڈاکٹر لوآنس سکاس (Dr. Loannis Sakkas) نے 60 یونانی ملاحوں کو ایک قطار میں کھڑا کردیا جن میں سے ہر ایک ملاح نے ایک لمبا آئینہ پکڑا ہوا تھا جو کہ سورج کی شعاعوں کو 160 فٹ دور کھڑے ایک بحری جہاز پر مرتکز کررہا تھا۔ اس جہاز نے چند منٹوں کے اندر ہی آگ پکڑ لی۔ یہ مرتکز شمسی توانائی کی دْنیا میں ایک بڑی دریافت تھی۔ ’’مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ سولر پینلز کے برعکس تھرمل پاور پلانٹ کے اصول پر کام کرتے ہیں۔انہیں ہم سولر تھرمل پاور پلانٹ (CSP)بھی کہہ سکتے ہیں۔ مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ سے بننے والی بجلی کا ہر 1 میگاواٹ ہماری 6,000 بیرل سے زیادہ تیل کی درآمد بچا سکتا ہے۔ پاکستان کی وزارت ِ توانائی کے مطابق پاکستان میں 60 فی صد بجلی تیل ، کوئلہ اور گیس سے پیدا ہوتی ہے۔ تیل اور کوئلہ نہ صرف ڈالر کھاتے ہیں بلکہ پاور پلانٹ کا دھواں ماحول کو بھی تباہ کرتا ہے۔ ’’پاکستان دنیا کی ‘‘سن بیلٹ (SunBelt)‘‘ پر واقع ہے جہاں سال میں تین سو دن بھرپور سورج چمکتا ہے جس سے یو ایس ایڈ کی ایک اسٹڈی کے مطابق ہم دو اعشاریہ نو (2.9) ملین میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ہر مربع میٹر پر اوسطاً پانچ کلو واٹ کی شدت سے شمسی توانائی (DNI) روزانہ پڑتی ہے جوکہ عالمی اوسط ساڑھے تین کلو واٹ( 3.5 kWh )سے بہت زیادہ ہے۔ ’’دنیا کے کئی ممالک میں سولر تھرمل پاور پلانٹ پچھلی دو دہائیوں سے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں انڈیا نے بھی سو گیگا واٹ( 100Gw) تک سولر تھرمل پاور پلانٹ لگا نے پر اس سال کام شروع کردیا ہے۔ دبئی میں DEWA پہلے ہی سات سو میگا واٹ کیپیسٹی کا سولر تھرمل پاور پلانٹ چلا رہاہے۔ ’’پاکستان میں بلوچستان کا علاقہ تو شمسی توانائی کا سمندر ہے جہاں ہر مربع میٹر پر توانائی کی شدت سات کلو واٹس 7kWh روزانہ ہے۔ یہ سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لیے آئیڈیل ہے۔اس کے علاوہ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقے بھی بہت زیادہ موزوں ہیں۔ صادق آباد، نواب شاہ اور کوئٹہ جیسے شہر سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لئے سب سے موزوں ہیں جو نہ صرف نیشنل گرڈ سے منسلک ہیں بلکہ سڑک کے ذریعے بھی ان شہروں تک رسائی آسان ہے۔ گوادر کے اندھیرے بھی ایسا ہی پلانٹ لگا کر دور کئے جاسکتے ہیں۔ ’’سولر تھرمل پاور پلانٹ سورج کی روشنی/ توانائی کو ایک ریسیور پر مرکوز کرنے کے لیے آئینے کا استعمال کرتے ہیں۔ مرتکز توانائی کا استعمال ایک سیال مادے (HTF)کو گرم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جو بجلی پیدا کرنے والی ٹربائن کو چلانے کے لیے بھاپ پیدا کرتا ہے۔ یہ سیال مادہ عام طور پر پگھلا ہوا نمک (نائٹریٹ) ہوتا ہے جس کو حرارت برقرار رکھنے والے کنٹینرز میں رکھا جاتا ہے تاکہ بلا تردد دن رات ٹربائن چلا کر بجلی پیدا کرنے کے لئے بھاپ پیدا کی جاسکے۔یہ کنٹینر دراصل وہ دیوہیکل بیٹریاں ہیں جن سے ہم کسی بھی وقت بجلی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’پاکستان میں ابھی تک کوئی سولر تھرمل پاور پلانٹ نہیں لگا لیکن کئی منصوبوں کی ابتدائی فیزیبیلٹی ہوچکی ہے جیسا کہ نواب شاہ میںپچاس میگا واٹ 50MW کا پلانٹ 2014 میں تجویز کیا گیا تھا جس نے سالانہ 54GWh بجلی پیدا کرنا تھی۔دیکھیں اس ماحول دوست ذریعہ توانائی پر کب کام شروع ہوتا ہے؟‘‘