نواز شریف اکتوبر کی اکیس تاریخ کو آرہے ہیں ۔ شکوک و شبہات میں لپٹا یہ بیانیہ ایک اہم موضوع کے طور پر زیر بحث ہے مگر کیا یہ موضوع اتنا اہم ہے ؟ تمام سیاسی ماہرین اور مبصرین اس گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہیں کہ نواز شریف آئینگے بھی یا نہیں ؟ آئے تو گرفتار ہوں گے یا پھر قبل از گرفتاری ضمانت لینے میں کامیاب ہو جائینگے؟ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات کس حد تک طے ہوگئے ہیں ۔ جو یقین دہانیاں ا نہیں مطلوب تھیں کرادی گئی ہیں یا ابھی کچھ شرائط طے ہونا باقی ہیں۔یہ اور اسی طرح کے سوالات ہیں جو ہر سطح پر زیر بحث ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اسے غیر ضروری اور غیر اہم معاملات میں ہمیشہ الجھا کر رکھا گیا ہے ۔ الیکٹرونک میڈیا، اخبارات اور سیاسی کارکنوں کو ان ہی میں مصروف ر کھا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہم نوعیت کے قومی مسائل اور معاملات جن پر سب کی توجہ ہونی چاہیئے وہ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔پاکستانی سیاست کا یہ مزاج ارادتاََ بنایا گیا ہے۔ایک کے بعد ایک ایسے معاملات صبح و شام میڈیا پر موضوع گفتگو میںرہتے ہیں جن سے عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات، ریاست کی سلامتی کو درپیش خدشات ، عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے سسکتی معیشت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیاسی قیادت کی طرف سے یہ بات تواتر سے کہی جارہی ہے کہ نواز شریف کے پاکستان پہنچتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ لو گ جن مشکلات کا شکار ہیں ان کے آتے ہی یہ ختم ہو جائینگی ۔یہ ہے وہ بیانیہ جو مسلم لیگ کی جانب سے عوام کے سامنے لایا جارہا ہے۔مان لیتے ہیں کہ ان کے آنے سے ایسا ہو جائے گا ۔ عوام کے چہروں سے جو رونق روٹھ گئی ہے وہ واپس آجائیگی تو پھر وہ آکیوں نہیں جاتے ۔ ریاست کی مشکلات کا کوئی حل اگر ان کے پاس ہے تو وہ وہ باہر کیوںہیں ؟ ہر بار ان کے آنے کی خبر تو آتی ہے مگر وہ خود آنے سے گریزاں ہیں۔نومبر 2019 سے وہ ملک سے باہر ہیں ۔وہ ایک سزا یافتہ قیدی تھے جب انہیں عدالت کی طرف سے ان کی علالت کی وجہ سے خصوصی ضمانت پر علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی ۔ علاج تو کیا ہونا تھا انہوں نے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے وہاں سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں۔عدالت کے بار بار بلانے کے باوجود وہ واپس نہیں آئے ۔حالانکہ ان کے برادر خورد شہباز شریف نے عدالت میں ان کی واپسی کے لئے ضمانتی حلف نامہ بھی جمع کرایا تھا ۔شہباز شریف اس ریاست کے اہم مناصب پر فائز رہے ہیں ۔ گزشتہ سال اپریل سے وہ سولہ ماہ وزیر اعظم بھی رہے ہیں مگر قانون کی پاسداری ،عدلیہ کا احترام اور سیاسی اخلاقیات کے تمام ضابطوں سے ، لگتا ہے ، انہوں نے از خود استثنیٰ لیا ہوا ہے۔ نواز شریف اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں ہر بار وہ اپنی منصبی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کا کوئی بھی جواز دیا جائے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا مزاج جمہوری نہیں ہے ۔اداروں کے ساتھ ان کی محاذ آرائی میں ان کے اس مزاج کا بڑا دخل رہا ہے ۔ جمہوری حکومتوں میں اختیارات شخصی نہیں اداراتی بنیاد پر تفویض ہوتے ہیں ۔ جمہوریت کا یہی بنیادی وصف ہے جس سے نواز شریف بالخصوص اور پاکستان کے بیشتر سیاستدان بالعموم سمجھنے سے محروم نظر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ ، عوام اور سیاسی جماعت پر نواز شریف کا اعتماد ہمیشہ متزلزل رہا ہے۔ اپنی سیاسی کامیابی کے لئے وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتے رہے ہیں ۔پھر اس سے ٹکرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس کا نتیجہ سیاسی ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ 1985 سے آج تک ان کا سیاسی سفر اسی پر محیط رہا ہے ۔ اب بھی جب کہ وہ چار سال سے زائد عرصے سے ملک کے عوام کو اور اپنی سیاسی جماعت کو مشکلات کے بھنور میں چھوڑ کر لندن کو اپنا گھر بنا ئے ہوئے ہیں جمہور سے، جمہوریت سے اورریاست سے ان کی محبت اور وابستگی کے دعوے کتنے حقیقی ہیں اس کے جواب کے لئے کسی الجبرے کے فارمولے کے اطلاق کی ضروررت نہیں ہے ۔ جواب بالکل واضح ہے مگرسیاسی عصبیت کی آنکھ سے یہ نظر نہیں آسکے گا۔مسلم لیگ سے وابستہ سیاسی کارکنوں کو اپنے قائدین سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیئے کہ وہ ہر دور ابتلاء میں راہ فرار کیوں اختیار کر جاتے ہیں ؟ جمہور اور اپنی سیاسی جماعت سے محبت کے ان کے دعوے ذرا سی آزمائش پر پورے کیوں نہیں اترتے۔ کیا پاکستان میں ان کی موجودگی حکمرانی سے ہی مشروط ہے ۔حکومت ختم تو ملک سے اور اس کی عوام سے تعلق ختم۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کا ہمیشہ یہ وتیرہ رہا ہے کہ انہیں اس ملک میں رہنا اسی وقت موزوں لگتا ہے جب اقتدار ان کے پاس ہو۔ ریاست سے مغائرت کا ان کا یہ انداز اب بہت سی وضاحتیں چاہتا ہے۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور ان کی دیگر سیاسی قیادت کو شریف خاندان سے یہ سوالات اٹھانے چاہیئں۔ جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر قیادت سے بازپرس کا عمل شروع نہیں ہوگا سیاست میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ پاکستانی سیاست میں مذہبی ، علاقائی اور نسلی عصبیت حد درجہ کارفرما ہے۔ جب تک سماج میں وڈیروں ،جاگیر داروں، پیروں ، سجادہ نشینوں، خانوں اور سرداروں کا غلبہ ہے۔ سیاست کا مزاج بدلنے سے رہا۔ پاکستان میں کسی انقلابی تبدیلی کی راستے میں یہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک ان ر کاوٹوں کو دور نہیں کیا جائے گا ، تبدیلی کی خواہش خیال خام ہی رہیگی۔ موجودہ سیاست سے فائدہ اٹھانے والوں کی جانب سے ان عصبیتوں کو ہمیشہ مستحکم کیا جاتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے نعرہ تو تبدیلی کا لگایا تھا مگر اس نے بھی سیاست میں عصبیت اور شخصی عقیدت کو فروغ دیتے ہوئے عوامی سطح پرمقبولیت حاصل کی جو آج بھی اپنی تمامتر ناقص سیاسی کارکردگی کے باوجود بڑی حد تک قائم ہے۔ پاکستان میں سیاسی انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ ان عصبیتوں کے زور کو توڑا جائے ۔ سیاسی انقلاب سے ہی سماج کی حالت بدلنے کی راہ ہموار ہوگی اس کے لئے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو ہی قدم اٹھانے ہونگے۔نواز شریف ہوں یا عمران خان یا بھٹو کے نام پر سندھ کی سیاست میں زرداری خاندان کی اجارہ داری ۔ آخر کب تک پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصیات کے سحر میں گرفتار رہینگی ۔ نواز شریف اگر چوتھی بار وزیر اعظم بن بھی گئے تو ان کا مزاج اور رویہ حسب سابق ہی رہے گا۔نہ ہی سیاسی ادارے مستحکم ہونگے اور نہ عوام اور ریاست کے حالات بدل پائینگے ۔ نو از شریف کی واپسی اہم بات نہیں ہے اہم بات یہ کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ وہ خود کو کتنا بدل پائے ہیں اور ا ن کے آنے سے پاکستان کی سیاست کا مزاج کتنا بدل پائیگا ۔ اس پر گفتگو اہم ہے ۔ وگرنہ رستہ توکٹ رہا ہے پر منزل نہیں قریب !!