آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی ایک بہترین سیریز A Very Short Introductionہے جس میں خاص موضوعات پر متعلقہ شعبے کے ماہرین سے ایک مختصر لیکن جامع تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ اس سیریز کی تقریباً ہر کتاب بقامت کہتر، بقدر بہتر کی مثال ہے۔ اس سیریز میں "فوجی انصاف" (Military Justice)پر ییل یونیورسٹی کے پروفیسر یوجین فیڈل نے لکھا ہے جو فوجی عدالتوں میں مقدمات کی پریکٹس کے حوالے سے طویل تجربہ رکھتے ہیں اور اس موضوع پر سند مانے جاتے ہیں۔ (ضمناً عرض ہے کہ پاکستان میں قانون کے اساتذہ کو پریکٹس کی اجازت نہیں جو ہمارے نظامِ انصاف کی ایک بڑی خامی ہے۔) پروفیسر فیڈل نے ان امور کا ذکر کیا ہے جو فوجیوں کے لیے الگ نظامِ انصاف قائم کرنے کا سبب بنے ہیں، جیسے جنگ کے لیے فوج کی تربیت، اس کے لیے نظم و ضبط کی اہمیت، کمانڈر کے احکامات کی تعمیل کا جذبہ راسخ کرنا، وغیرہ۔ نیز فوجیوں کے امور، ان کے مسائل اور ان کے متعلق فیصلوں کے نتائج کو صرف فوجی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ چنانچہ فوجیوں کے لیے الگ نظامِ انصاف کی تشکیل قابلِ فہم ہے۔ پروفیسر فیڈل بتاتے ہیں کہ فوجی انصاف میں تین مختلف انواع کے امور ہوسکتے ہیں: ایک، کسی اہلکار کے خلاف انضباطی کارروائی جسے سزا کے بجاے تادیب کہا جاسکے؛ یہ یقیناً فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسرا بعض "فوجی جرائم" کے ارتکاب پر کسی فوجی اہلکار کو سزا سنائی جائے؛ یہ بھی فوج کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی قانون کے ارتقا کے نتیجے میں دنیا بھر میں اس کے متعلق اب یہ رجحان ہے کہ ملزم کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئیں جو "منصفانہ سماعت" کے لیے سویلین عدالتوں میں ضروری سمجھے جاتے ہیں، جیسے بری الذمہ فرض کرنا جب تک مجرم ہونا قطعی طورپر ثابت نہ کیا جائے؛ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی معلومات کو بطورِ ثبوت پیش کرنے کی ممانعت؛ اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہ کرنا؛ اپنے خلاف شواہد اور گواہوں کو جھٹلانے کا موقع فراہم کرنا؛ اپنے دفاع کے لیے اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی سہولت، وغیرہ۔ اسے "فوجی انصاف کو سویلین طرز پر ڈھالنے" (civilianization of military justice)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تیسرا، کسی سویلین پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا۔ اسے معاصر دنیا میں بالخصوص تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی اجازت عام طور پر نہیں دی جاتی، سوائے اس مخصوص صورت کے جب ملک میں جنگ ہو، یا جنگ کی سی صورت حال ہو، جس میں عام ملکی عدالتوں کی کارروائی روک دی گئی ہو۔ یہاں بھی مقدمے میں انصاف کے بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور خصوصاً فیصلے کے بعد سویلین عدالتوں میں اپیل کا حق میسر ہونا چاہیے۔ پروفیسر فیڈل نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہیکہ فوجی انصاف کا نظام کمانڈر کی مرکزیت پر مبنی (commander-centric) ہوتا ہے، یعنی کمانڈر ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کب فوجی عدالت لگنی چاہیے، مقدمہ کس الزام کے تحت ہونا چاہیے، جج کون ہوگا، بلکہ جج کو یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کمانڈر اس سے کس طرح کی سزا کی توقع رکھتا ہے؛ پھر عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کمانڈر کو ہی ہوتی ہے جو فیصلے کو واپس بھی بھجوا سکتا ہے (اور عدالت کے خلاف ناراضی کا اظہار بھی کرسکتا ہے)۔ پروفیسر فیڈل توجہ دلاتے ہیں کہ چونکہ فوجی عدالت کے جج پر کمانڈر کی اطاعت واجب ہوتی ہے، نیز کمانڈر کے ناراض ہونے پر بعض مراعات چھن جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے، اور بطور جج تعیناتی مقررہ مدت ( tenur (fixed کے لیے نہیں ہوتی، اس لیے ایسے جج سے آزادانہ اور غیر جانب دارانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سویلین عدالتوں میں اپیل کا حق اس لیے بھیضروری ہوجاتا ہے۔ فوجی انصاف کے نظام کے متعلق ان امور پر اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحث جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین کی دفعہ 8 میں جہاں بنیادی حقوق سے متصادم قوانین کے کالعدم ہونے کی بات کی گئء ہے، وہیں اس کلیہ سے مسلح افواج کے متعلق خصوصی قوانین کو استثنا بھی دی گئی ہے، اور اس بات کو فوجی نظم و ضبط کے اصول پر ہی جواز دیا جاتا رہا ہے۔ البتہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق 1952ء سے 1967ء تک صرف مسلح افواج کے افراد پر ہی ہوتا رہا لیکن 1967ئ￿ میں پہلی بار اس میں دفعہ 2 (ا) (ڈی) (i) اور (ii) کا اضافہ کرکے ان کا اطلاق دو صورتوں میں سویلینز پر بھی کیا جانے لگا: ایک، جب سویلینز نے فوج میں بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی ہو،؛اور دو، جب انھوں نے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا ہو۔ دونوں صورتوں میں فوج کے اندر سے بعض افراد کے ملوث ہونے کا مفروضہ ہوتا ہے جن کے خلاف کارروائی ضروری ہوتی ہے۔ مشہور بریگیڈیئر ایف بی علی کیس (1975ء ) میں ان میں پہلی صورت تھی جب فوج کے بعض ریٹائرڈ افسران پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے حاضر سروس فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں ان ریٹائرڈ افسران پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کو جائز قرار دیا تھا۔ اس کے بعد 1977ء میں بھٹو حکومت نے پی این اے کی تحریک کے تناظر میں ایک خصوصی آرڈی نینس کے ذریعے آرمی ایکٹ کے اطلاق کو مزید وسعت دینے کی کوشش کی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے درویش عربی کیس (1980ء ) میں اسے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں وفاقی قوانین کے متعلق نئے آرڈی نینس کے ذریعے اس قانون کو منسوخ کردیا۔ ایک اور کوشش 1998ء میں نواز شریف حکومت نے ایک خصوصی قانون سازی کے ذریعے کی لیکن سپریم کورٹ نے لیاقت حسین کیس (1999ء ) میں اسے بھی کالعدم کردیا۔ آخری کوشش نواز شریف حکومت میں 2015ء میں کی گئی جب آرمی سکول پشاور پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات چلانے کی اجازت 2 سال تک دی گئی (پھر نواز شریف دور میں ہی 23ویں ترمیم کے ذریعے اس مدت کو مزید دو سال کے لیے بڑھا دیا گیا)۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کیس (2015ء ) میں سپریم کورٹ میں ججز کی اکثریت نے اس اقدام کو اس بنیاد پر قابلِ برداشت مانا تھا کہ ایک تو ملک میں جنگ کی سی صورت حال تھی، پھر فوج براہِ راست حملوں کی زد میں تھی اور ان عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم کے ذریعے مدت مخصوص کرلی گئی تھی۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا مسئلہ خصوصاً اہم ہے۔ بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادو کے متعلق بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے ضروری قرار دیا تھا کہ اسے اپنے دفاع کے لیے مرضی کا وکیل کرنے کے لیے قونصلر تک رسائی دی جائے جس کے بعد پاکستان کو اس موضوع پر خصوصی قانون بنانا پڑا کیونکہ رائج الوقت قانون میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ 9 مئی کو جن جرائم کا ارتکاب کیا گیا، ان پر آئین اور قانون کی حدود کے اندر سخت کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن ملزمان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک اور ان کے لییمنصفانہ سماعت کا حق یقینی بنانا لازم ہے۔