ویسے تو ہم سمجھتے تھے کہ ’’پالیسی ساز‘‘ سیاستدانوں کو استعمال کرتے ہیں مگر اس دفعہ تو سب کچھ اُلٹ ہوگیا ہے۔ لگتا ہے کہ ڈیڑھ سالہ حکومت والے سابق حکمران پالیسی سازوں کو استعمال کرکے نکل گئے ہیں۔ اپریل 2022ء میں جب پی ڈی ایم برسراقتدار آئی تو اُس وقت حالات اس قدر سنگین نہیں تھے، مہنگائی تھی مگر 45فیصد نہیں بلکہ 13فیصد تھی لیکن پھر ایک ٹولہ ملک پر مسلط ہوا، اس ٹولے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے متعدد وزیر اُس وقت ضمانتوں پرتھے۔ پھر انہوں نے سب سے پہلا کام اپنے اوپر تمام تر مقدمات کی صفائی کروائی، پھر تگڑی کرپشن کی ، کمیشنیںکھائیں اور چلتے بنے ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ راقم نے رواں ماہ کے آغاز ہی میں یعنی 5اگست کو ایک کالم تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا کہ ’’کیا حکمران ملک میں سول نافرمانی چاہتے ہیں؟‘‘ یہ بات میں نے اسی پیرائے میں کی تھی کہ کس طرح عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ کیوں کہ سابقہ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کس طرح عوام کو ریلیف دیا جائے، بلکہ وہ تو اس موڈ سے آئے ہی نہیں تھے کہ عوام کے لیے کچھ کیا جائے ، وہ ڈیڑھ سال میں اپنے مقدمات ختم کرکے ملک سے باہر جا چکے ہیں۔انہوں نے اُن مقدمات میں بھی ریلیف لیا جن میں وہ مفروری کاٹ رہے تھے۔ ڈیڑھ سال میں خوب دیہاڑیاں بھی لگائیں، لیب ٹاپ سکیم ، مفت آٹا سکیم میں اربوں روپے کھائے گئے اورعوام کے حصے میں ناقص گندم آئی۔ حتیٰ کے ایک سابقہ جرنیل نے بھی الزام لگایا کہ ایک سکیم میں شہباز شریف نے 45ارب روپے کی کمیشن حاصل کی ہے۔بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی‘ بھوکے کو بے حال کیے رکھتی ہے۔ سیاستدان بھوک مٹانے کی طلب میں اس قدر بے حال اور بدمست ہو چکے ہیں کہ انہیں عوام کے گھروں میں بھوک اور فاقوں کے ڈیرے نظر ہی نہیں آتے۔ ان کے محلات‘ شاہانہ طرزِ زندگی‘ ملکی و غیرملکی ہوش رْبا اثاثے‘ سبھی عوام کی بھوک کے مرہونِ منت ہیں۔ جب تک عوام بھوکے مرتے رہیں گے‘ یہ پھلتے پھولتے اور ترقیوں کے پہاڑ سر کرتے رہیں گے۔ ان کی خوشحالی عوام کی بدحالی سے مشروط جو ٹھہری۔ ملک میںخطِ غربت روز ایک نیا ریکارڈ بنا رہا ہے۔ پسماندہ بستیوں میں ننگے پیر‘ ننگ دھڑنگ معصوم بچے کیا جانیں کہ ان کے حصے کی روٹی اور بنیادی سہولیات کس کس کی شکم پروری کر رہی اور کس کس کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ قوم اس وقت ان تمام مسائل کا ذمہ دار پالیسی سازوں کو ٹھہرا رہی ہے۔جبکہ گزشتہ ڈیڑھ سال بھی پالیسی سازوں کو ہی غلط کہا گیا ، لہٰذااگر سول نافرمانی ہوتی ہے تو اس کا سامنا کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والی قوتوں نے کرنا ہے۔وہ مان لیں کہ اس بار وہ استعمال ہوئے ہیں، وہ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ حالات بہتری کی طرف کب تک جائیں گے، یا جا سکتے بھی ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ ڈالر سوا تین سو کو چھو رہا ہے، پٹرول تین سے روپے فی لیٹر کے قریب ہے،بجلی کم از کم 70روپے فی یونٹ تک جا چکی ہے، جبکہ قریبی ہمسایہ ملک انڈیامیں صرف 14روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ لہٰذااب اگر یہ روز مرہ کے استعمال کی چیزیں مہنگی ہیں تو غریب آدمی کیا کرے؟ وہ ڈکیتی نہ ، راہ زنی یا ہیرا پھیریاں نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ کسی کے گھر میں فاقے ہوں اور می وہ خاموشی سے گھر بیٹھ جائے اور موت کا انتظار کرے لیکن وہ اپنے بچوں کا کیا کرے؟ یعنی اگر کسی کابچہ سکول نہیں جا رہا تو گزارا کر لے گا، اگر وہ اچھے کپڑے نہیں پہن رہا تو بھی گزارا کر لے گا، لیکن اگر روٹی نہیں کھائے گا ، یا وہ بیمار ہے تو اُسے دوا نہیں ملے گی اور وہ مر رہا ہوگا تو پھر وہ کیا کریگا؟ کیا آپ کو علم نہیں کہ جنگل کا قانون کیا کہتا ہے؟ جنگل میں جب کسی جانور کا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو وہ اُس کی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے کیا کسی کو چیرنے پھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں؟ نہیں ناں! یہی حال پاکستانیوں کا ہو چکا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ گوجرانوالہ کے ایک علاقے میں 15(پولیس ہیلپ لائن) پر ایک 12سالہ بچی کی کال آتی ہے کہ باپ بیمار ہے، جبکہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھوکے ہیں، لہٰذاہماری مدد کی جائے۔یہ کال جب مقامی ایس ایچ او تک پہنچی تو وہ راشن سمیت لڑکی کے گھر پہنچا اور مدد کی۔ یہ ایک گھر کی کہانی ہے، اس وقت آدھے سے زیادہ پاکستان اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اور تاریخ میں پہلی بار عوام کی جانب سے سول نافرمانی کے دعوے کیے جار ہے ہیں، بلکہ بجلی کے بلوں کے خلاف تو مسجدوں میں بھی اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ ان یوٹیلٹی بلوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بہرکیف مملکتِ خداداد میں 76برسوں سے لگے تماشے کا جائزہ لیں تو مہنگائی کی کھیتی صرف عوام نے ہی کاٹی ہے۔ حکمرانوں کی لگائی ہوئی کھیتیاں کاٹتے کاٹتے اب تو ہاتھ بھی لہو لہان ہو چکے ہیں بالخصوص دو خاندان ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ حکمرانی کے ادوار میں وطنِ عزیز کی عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ کوڑھ کاشت کرتے رہے ہیں، وہ کوڑھ اب جابجا ہر سو دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر طرزِ حکمرانی کی سبھی کھیتیاں عوام ہی کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے اعمال کی ایک کھیتی بھی نہیں کاٹی‘ کھیتی کاٹنے کے بجائے یہ نئی فصل ہی لگاتے چلے گئے ہیں اور ان سبھی فصلوں کو کاٹتے کاٹتے عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔ لہٰذاان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہیں الیکشن۔ لیکن الیکشن کے نتائج کا خوف فیصلہ کرنے والی قوتوں کو اس قدر بے چین کیے ہوئے ہے کہ وہ الیکشن کا نام ہی نہیں لیتے۔لیکن گزشتہ روز سوات میں بلدیاتی ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 80فیصد نشستیں حاصل کیں(جیتنے والے متعدد آزاد اُمید وار وں کا تعلق بھی تحریک انصاف ہی سے تھا) ۔ ایسے ماحول میں کیسے ممکن ہے، صحیح قیادت اس ملک کو سنبھالے گی۔ اور اگر جب بھی الیکشن ہوئے اور الیکشن دھاندلی زدہ کروانے کی کوشش کی گئی تو کیا اس سے ملک میں استحکام آجائے گا؟ کیا اُس سے آئی ایم ایف رام ہو جائے گا؟ ایسا کبھی ممکن نہیں ہوگا! اس لیے فیصلہ کرنے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ملک کو دیکھیں، یہاں کے عوام کو دیکھیں اور پھر فیصلے کریں ورنہ کچھ نہیں بچے گا! ٭٭٭٭٭