ریاست کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھا رہے ہیں ۔سیاست ، معیشت،اور داخلی سلامتی کی صورتحال پیچیدہ اور گھمبیر ہو چکی ہے۔ عوام بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ اداروں کی بے حسی اور مقتدر فیصلہ سازوں کی ترجیحات سے یوں لگتا ہے جیسے یہ اپنی سمت کھو چکے ہیں اور پاکستان کو ( خدا نخواستہ ) بتدریج نا قابل انتظام (un governable) ریاست کی طرف لے جایا جارہا ہے۔سیاست ہر جمہوری اور سیاسی اصولوں سے آزاد ہو کر شخصی انتقام اور ضد کے راستہ پر دوڑ رہی ہے اور اہم مناصب پر براجمان شخصیات کے غیر سنجیدہ رویوں سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے ۔ اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر صدر پاکستان نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ ان کے منصبی فرائض اور وقار کے مطابق نہیں تھا ۔ان کے ٹویٹ کے مطابق انہوں نے اپنے اسٹاف کو دونوں بل دستخط کئے بغیر واپس بھیجنے کی ہدایت کی تھی جو ان کا ا سٹاف مقررہ وقت پر بھیجنے میں ناکام رہا ۔ صدر محترم نے اللہ کو گواہ بناتے ہو ئے ساری ذمہ داری اپنے اسٹاف پر ڈال دی جسے ان کے پرنسپل سیکرٹری نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور وضاحت کی کہ بل سیکرٹری آفس کو موصول ہی نہیں ہوئے ۔ اس کے لئے وہ ( پرنسپل سیکرٹری ) ہر قسم کی تحقیقات کے لئے تیار ہیں ۔ صدر اور ان کے سیکرٹری کے بیانات کے تضادات سے سیاسی اور آئینی موشگافیوں کی ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔اس پر مستزاد صدر صاحب کے ٹویٹ کی زبان سے ان کی اپنے اسٹاف پر کمزور گرفت اور منصبی ذمہ داریوں سے متعلق ان کی بے بسی کا اظہار بھی ہوا جو قومی سطح پر باعث حیرت کے ساتھ باعث تشویش بھی بنا۔ پارلیمانی جمہوریت میں صدارتی منصب کو وفاق کی علامت کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو صدر منتخب ہونے کے بعد اسے اپنی سیاسی وابستگی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے ۔لیکن افسوس کے صد عارف علوی اپنا یہ تاثر دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔وفاق میں عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کا رویہ نہ تو ان کے منصبی وقار کے مطابق رہا اور نہ وہ اپنے حلف کے مطابق ریاستی ذمہ داریوں کو اپنی سیاسی وابستگی اور مفادات پر ترجیح دینے کا مظاہرہ کر سکے۔ شہباز شریف سے وزارت عظمی کا حلف لینے سے گریز سے ان کی سیاسی عصبیت اور حلف سے روگردانی بالکل واضح تھی ۔اسی طرح عمران خان نے امریکن سائفر کو جس طرح سیاسی طور پر اچھالا اور اسے جلسوں میں گفتگو کا موضوع بنایا وہ کسی بھی طرح درست طرز عمل نہیں تھا اور نہ ہی اس سے ان کی سیاسی دانائی کا اظہار ہوا ۔ البتہ ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے ضرور بڑھ گئے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے جاری داخلی سیاسی انتشار اور سیاست دانوں کی باہمی چپقلش نے امور ریاست کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آئین ،قانون ، ضابطے اور اصول محض کتابوں میں لکھے لفظ بن کر رہ گئے ہیں اور ان پر عمل کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔جب ریا ست کے ادارے اور اس کے حکمران آئین سے انحراف کرنا شروع کردیں اوراپنی مرضی اور مفادات کے مطابق طرز عمل کو اپنالیں یا کوئی خاص ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دیگر اداروں کو اپنے زیر اثر رکھنے کی روش کو اپنا شعار بنالے تو پھر انتشار اور بگاڑ ہی جنم لیتا ہے ۔اور ترقی کے راستے دشوار تر ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا راستہ بالکل واضح اور سیدھا ہے اور وہ ہے آئین کے طے شدہ راستے کو اختیار کرنا۔ ریاست کا ہر فیصلہ ساز ادارہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا مکلف ہے۔ اور اسے اس کی آزادی ہونی چاہیئے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت جس قدر اداراتی کارکردگی میں بہتری کی ریاست کو ضرورت ہے ۔ اس سے اتنا ہی اغماض برتا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس کی ذمہ دار ی سب پر عائد ہوتی ہے۔سیاست دان ہوں یا بیوروکریٹ، ججز ہوں یا جنرل، ذرائع ابلاغ کے ادارے ہوں یا ذہن ساز ادارے ، سب اپنی ذمہ دا ریاں آئین اور قانون کے مطابق نبھا نے میں ناکام رہے ہیں۔ اس صورتحال کی ذمہ داری سب کو قبول کرنا ہوگی اور مل کر ہی اس سے نکلنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ایک دوسرے پر الزام تراشی یا کسی ایک ادارے پر اس کی ذمہ داری ڈال دینے سے بات نہیں بنے گی۔ جمہوری سیاست میں سیاسی اختلافات کا ہونا بالکل بھی باعث تشویش نہیں لیکن اگر یہ اختلافات ریاست کی سلامتی اور اداروں کے وقار کو تاراج کرنے لگیں تو پھر یہ صورت حال قابل قبول نہیں ہونی چاہیئے۔ ریاست کی سلامتی اور استحکام آئین کی پابندی میں ہے ،قوانین کے اتباع میں ہے اور اپنے دائرہ ء کار میں رہتے ہوئے بہتر کارکردگی کے اظہار میں ہے۔ کوئی ادارہ بھی آئین اور ریاست سے بالاتر نہیں ہے۔ پارلیمنٹ، انتظامیہ،عدلیہ اور عسکری ادارے سب ریاست کے ہی ادارے ہیں ان ہی کی کارکردگی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریاست کے تشخص کی صورت گری ہوتی ہے۔ ریاستیں مشکل حالات کا شکار ہو تی ہیں بحران بھی جنم لیتے ہیں اور اس کا سامنا کرتے ہوئے سرخرو بھی ہوتی ہیں راستہ اور طریقہ ایک ہی ہے۔ آئین کے مطابق عمل کرنا ۔ پاکستان اس وقت جس اداراتی خلفشار اور انتشار سے دوچار کردیا گیا ہے اس سے نکلنے کے لئے آئینی موشگافیوں کی نہیں ۔ آئین پر عمل کرنے کی سنجیدگی سے ضرورت ہے۔ موجودہ نگراں حکومت کو غیر ضروری معاملات میں الجھے بغیر اپنی ساری توجہ آئندہ انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔یہ ہی ان کا اختیار حکومت ( MANDATE ) ہے َ۔اس سے تجاوز کی ہر کوشش نہ صرف ان کے لئے مشکلات کا باعث ہوگی بلکہ سیاست اور ریاست ہر دو کے لئے مزید بحران میں گھر جانے کا سبب بھی ہوگی۔ دانائی اسی میں ہے۔ نگراں حکومت اس رمز کو سمجھنے میں تاخیر نہ کرے۔