جب لوگوں کے خواب بکھرنے لگیں، ان کے وجود پر مایوسی کے سائے طاری ہونے لگیں ،جب تاریخ لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے سیاستدان بھی کیا ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنا موقف بدل لیتے ہے، نئے لباد اوڑھ لیتے ہیں یا بیانیے بناتے ہیں، جن کے پیچھے نہ دلیل ہوتی ہے نہ سچائی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر آپ لوگ اقتدار کے لئے جنگ کر رہے ہیں، تو سمجھ لیں کہ آپ ناکام لوگ ہیں، اگر آپ جھونپڑیوں کچے گھروں میں رہنے والوں، ریڑھیاں، رکشے اور ٹریکٹر چلانے والوں کے دلوں میں اترنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، تو پھر سمجھنا چاہیے کہ آپ کامیاب لوگ ہیں، کون کس طرح لوگوں کے دلوں میں بستا ہے، اقتدار کیا ہے؟ سرکار کیا ہے؟ جو دل میں بستا ہے، حکومت اسی کی ہے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آپ ایسا کیوں نہیں کر پاتے، یہ تو بس ایک دوسرے کو رنگ سے باہر پھینکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک دوسرے کی حماقتوں کو گنوا کر اپنی سیاست چکانے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنے نامہ اعمال پر کسی کی نظر نہیں، آپ ایسی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ کوئی اس ملک اور اس میں رہنے والوں سے ان کا مستقبل نہ چھین سکے، ایسی فضا کیوں نہیں پیدا کر سکتے کہ الجھی گتھیاں سلجھ سکیں۔باہم نفرتیں اور کدورتیں ختم ہو سکیں، تقسیم در تقسیم کا عمل رک سکے کبھی بااختیار اور صاحب اقتدار لوگوں نے سوچا کہ یہ کیسی طبقاتی اور نظریاتی کشمکش ہے عوام کا دکھ درد دور کرنے والوں کا کردار کیا ہے، ایسی زمین اور ایسا ماحول کیوں ہے کہ فصل پکنے سے پہلے تباہ ہو جاتی ہے جہاں اجالا داغ داغ رہتا ہے کبھی آپ نے اپنے مفادات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے یہ سوچا کہ عوام کی خواہشات ان کی کہانیاں ان کی توقعات ادھوری کیوں رہ گئی ہیں، آپ نے کبھی سوچا کہ آپ ایسی زمین کیوں ہموار نہ کر سکے کہ سچائی انصاف اور خوشحالی کا پودا تناور درخت بن سکے، یہی کوشش یہی جدوجہد آپ کی ذمہ داری تھی، اسی طرح جمہوری اداروں کو مستحکم ہونا تھا۔لیکن آج کی حقیقت کیا ہے، ہم ایک مظلوم اور زخم خوردہ قوم کی طرح اپنے پورے نظام اور انتظامی ڈھانچے کو زمین بوس ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس وقت جو سیاسی لہریں رواں دواں ہیں، اس انتخابات کے اعلان نے سیاسی کارکنوں میں ایک ہلچل ضرور پیدا کی ہے، ان میں تمام ہی پارٹیوں کے وہ کارکن بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی جوانی کے چمکتے دل اپنے پارٹیوں اور اپنے لیڈروں پر قربان کر دیے۔ میں ایسے بے شمار سیاسی کارکنوں کو جانتا ہوں، ایسے طالب علموں کو، جن کے تعلیمی کیریئر ختم ہو گئے، ایسے کتنے گھرانے تباہ ہو گئے ،جن کے واحد کفیل ان کے نوجوان تھے لیکن انہوں نے اپنے خاندانوں پر پارٹی کو فوقیت دی اور نہ جانے کتنے ہزاروں تاریک راہوں میں مارے گئے ان پارٹی کارکنوں نے اپنا کردار بہادری سے ذمہ داری سے جوش و خروش سے ادا کیا لیکن گزرے دنوں کو یاد کر کے آج بیشتر کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی اب تک کی قربانیاں رائیگاں گئی ہیں۔ ان کی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں ،تو انہیں کچھ نہیں ملتا ،اجنبی لوگ سارے پھل اتار لیتے ہیں کیا آپ میں سے کسی نے سوچا کہ عام لوگ جن سے محبت کرتے ہیں، سب سے زیادہ توقعات بھی انہی سے ہوتی ہیں شخصیتیں تو فانی ہیں، ان سب کو ایک روز چلے ہی جانا ہے، عوام نے آپ سے محبت کی تھی، بھٹو کی پیپلز ہو جسے پاکستان نے عوام نے پہلے ہی الیکشن میں فتح دلوائی ،کیسے کیسے امیدوار جیتے بڑی بڑی دستاروں والے جاگیروں والے برج گر گئے۔ مزدور کسان طالب علم اسمبلیوں میں جا پہنچے لیکن 1977ء میں پھر پگڑیاں کلاہیں، تمنداریاں سرداریاں غالب آگئیں۔ 79ء میں شہادت نے خاک نشینوں کے دل میں گھر کر لیا، ووٹ پھر بھٹو کا ہو گیا پھر پاکستان کے بدحال پریشان عوام نے پی پی کو حکومت کا موقع دیا، بے نظیر امید کی کرن بن کر ابھریں اتنی طویل اور مسلسل وفاداری کسی جماعت کے مقدر میں نہیں آئی ،پھر بھٹو کی بیٹی ایک دن دہشت گردی کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے منہ موڑ گئی، عوام کی ہمدردیاں اس المناک واقعہ کے بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے لئے سمٹ آئیں لیکن پھر کیا ہوا پیپلز پارٹی بتدریج سکڑنے لگی اس کے وجود سے نکلنے والی انقلابی چنگاریاں کچھ کر گزرنے کی حرارت کم ہوتی چلی گئی اور وہی ہوا جو ہونا تھا کیونکہ ان محبتوں وفائوں اور قربانیوں کے بھی کچھ تقاضے تھے بھٹو نے تو روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مثالی نیشلسٹ تھے لیکن آج کی سیاست میں آنکھیں ان کے وارثوں سے بہت سے سوال کرتی نظر آتی ہیں، اندرون سندھ لڑکیوں پر تپتی دوپہروں اور کپکپاتی سردیوں میں اب بھی مسافتیں طے کرتے ننگے پیر بہت کچھ پوچھتے ہیں ۔خلق خدا کی زندگی کی کڑی آزمائشیں آج بھی بلاول ہائوس کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ عمران خان سے میرا گلہ یہ ہے کہ آکسفورڈ کی علمی فضائوں سے انہوں نے اپنے وجود کی جو تعمیر کی تھی، کرکٹ کے میدان سے داد تحسین مقبولیت اور پرجوش نعروں سے انہوں نے جس طرح اپنی شخصیت کو پرکشش بنایا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر سے انہوں نے عزت و تکریم اور وقار حاصل کیا تھا لوگوں کی محبت سمیٹی تھی، نمل یونیورسٹی کی تعمیر سے اعلیٰ تعلیم کے معیار کی جو شاندار بنیاد رکھی تھی، ایک سوشل ریفارمر کے طور پر جو عزت کمائی تھی، اس کے بعد اس سیاست میں کیا رکھا تھا۔ یہ اقتدار یہ اختیار کوئی معنی نہیں رکھتا تاریخ بڑی سنگدل ہے، اسے آپ کے بیانیوں آپ کی تقریری صلاحیتوں آپ کے عزائم اور حماقتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ صرف لوگوں کے کارنامے دیکھتی ہے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تھا آپ ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے آپ جیسے شخص کے لئے سب سے اہم کام یہ تھا کہ آپ اس کروڑوں کے ہجوم کو ایک قوم بناتے آپ لوگوں کے درمیان یکجہتی رواداری اور محبتوں کی علامت بنتے آپ نے سچ پوچھیں نہ جانے کیوں لوگوں کو بانٹ دیا اختلاف رائے کو دشمنی میں بدل ڈالا آپ نے کوئی قوم تعمیر نہیں کی ۔ جس سے نئے پن کا احساس ہوتا ،کسی سسٹم کی اصلاح نہیں کی آپ نے نہ انصاف دلایا نہ تعلیم نہ صحت نہ عزت نہ طبقاتی تفریق ختم کی نہ آپ نے معاشی عدل قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمرانی سے نوازا تھا، تو آپ کی ذات میں عجز دھیما پن بردباری اور متانت آنی چاہیے تھی وہ بحیثیت حکمران آپ کے عمل سے جھلکنی چاہیے تھی لیکن آپ کے قول و فعل میں مفاہمت کے بجائے انتقام کی جھلک نظر آئی لیکن پھر آپ کے حریفوں کی حماقتوں نے آپ کو ایک نئی لائف لائن فراہم کر دی اقتدار سے علیحدگی کے بعد آپ نے بے شمار لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ لیں مگر یہاں بھی آپ ڈگمگا گئے آپ نے اپنی پارلیمانی قوت کو یکجا کرنے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں سے تنکوں کی طرح بکھیر دیا پھر آپ گاڑی کے اس ڈرائیور کے مانند بن گئے جس کے بریک فیل ہو گئے پھر آپ قدرت کی تمامتر کرم فرمائی کے باوجود خود اپنے ہاتھوں حادثے کا شکار ہو گئے۔ آپ جیل کے خاموش کمروں میں نہ جانے کیا سوچ رہے ہیں امید کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ مسئلے کا حل گفتگو و شنید سے ہو گا دو قوم پیچھے ہٹ جائیں طاقتور ہی دبنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے مجھے تو نواز شریف صاحب سے بھی یہی کہنا ہے کہ جب آپ عمودی چٹان پر کھڑے ہوں تو وہاں پنجہ آزمائی نہیں کی جاتی۔ آپ کو پاکستانی سیاست میں ایک اچھی اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لئے بہت اہم کردار ادا کرنا چاہیے ۔ سب کو چاہیے امید کا بیانیہ بنائیں مل بیٹھیں ’’معافی‘‘ اور درگزر اللہ رب العزت کو بھی پسند ہے۔ اقتدار اور اختیار آنی جانی چیز ہے یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ الیکشن ہوتے رہیں گے پہلے سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہو جائے۔