انگریز دور میں ڈسٹرکٹ گزیٹر شائع ہوتے تھے، جس سے متعلقہ ضلع کے تمام حالات و واقعات سے مکمل آگاہی دی جاتی تھی، ڈسٹرکٹ گزیٹر میں تاریخ ، ثقافت، جغرافیہ ، ضلع کے قدیم آثار اور شخصیات بارے بہت کچھ جاننے کو مل جاتا تھا۔ انگریز چلے گئے، اب ڈسٹرکٹ گزیٹر شائع نہیں ہوتے، البتہ اپنے طور پر بعض اہل قلم کوششیں کرتے رہتے ہیں، جس سے کسی بھی علاقے کی تاریخ ، ثقافت، سیاست اور وہاں کی شخصیات بارے جاننے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ایسی ایک شخصیت شہزاد خان کی ہے جو کہ محکمہ اطلاعات میں افسر ہیں، ملازمت کا بیشتر حصہ لاہور میں گزارا، اب رحیم یار خان میں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جنم بھومی اور اپنی مٹی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے علاقے کے بارے میں ’’سرزمین مظفر گڑھ ‘‘ کے نام سے ایک بہترین کتاب لکھی ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ، اس میں سرزمین مظفر گڑھ عہد بہ عہد، شہر اور قصبے ، آثار قدیمہ، سیاحتی مقامات، شخصیات، ادب، صحافت، سیاست اور فنون لطیفہ کے بارے میں پڑھنے کیلئے بہت کچھ شامل ہے۔ کتاب میں علامہ اقبال کا ایک خط مظفر گڑھ کے مولانا عبدالعزیز پرہاروی کے نام شامل ہے، جس میں ان سے ایک کتاب طلب کی گئی ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ،دربار پیر مہدی شاہ مظفر گڑھ میں سات ماہ مقیم رہے، کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ معروف صوفی شاعر خواجہ فرید کے اجداد ملتان کی نواحی بستی منگلوٹ سے ہجرت کر کے مظفر گڑھ کی بستی یارے شاہ میں قیام پذیر ہوئے، بعد میں کوٹ مٹھن اور چاچڑاں شریف میں سکونت اختیار کی۔ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ پہلے انہوںنے مظفر گڑھ کے قصبے خان گڑھ میں اور بعد میں ملتان سکونت اختیار کی۔ مظفر گڑھ کی شخصیات میں سردار کوڑا خان جتوئی کا نام قابل ذکر ہے، جنہوں نے دس ہزار ایکڑ سے زائد زمین تعلیم کی ترقی کیلئے وقف کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پورے ملک میں مظفر گڑھ کی پہچان تھے، پٹھانے خان جن کا تعلق کوٹ ادو سے تھا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مظفر گڑھ کا عالمی درشن تھے۔ ریاست بہاولپور کے پہلے وزیر اعظم اور پنجاب و مغربی پاکستان گورنر نواب مشتاق گورمانی ، سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید تصدق حسین جیلانی ، سابق گورنر ملک غلام مصطفیٰ کھر، حنا ربانی کھر، جمشید دستی، عالمی شہرت یافتہ شاعر جانباز جتوئی، مختیاراں مائی، نواب مظفر خان، ماہر تعلیم جمیل قریشی سمیت سینکڑوں شخصیات کا ذکر کتاب میں موجود ہے۔ شہزاد خان نے مظفر گڑھ کے بارے میں بجا لکھا کہ مظفرگڑھ وسیب کا اہم ضلع ہے، مظفرگڑھ شہرکی بنیاد نواب مظفر خان نے 1794ء میں رکھی۔ لفظ مظفر گڑھ کا لغوی مطلب ہے ’’مظفر کا قلعہ ‘‘کیونکہ یہاں والئی ملتان نواب مظفر خان نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا ، پرانا شہر اس قلعے کی دیواروں کے اندر واقع تھا، اس کا پرانا نام موسن دی ہٹی تھا، اس وقت یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ سرزمین مظفرگڑھ دراصل دریائوں کی دھرتی ہے یعنی یہاں پر سب دریاؤں کے پانیوں کا ملاپ ہوتا ہے، اس کے مغربی کنارے پر عظیم دریائے سندھ بہتا ہے اور مشرقی کنارے پر دریائے چناب، اس دوآبے میں واقع دھرتی کی مٹی میں ان دریاؤں کی تمام خصوصیات ہیں اور اس علاقے میں پیدا ہونے والے لوگوں کا خمیر اسی مٹی سے بنا ہے۔ غزنوی دور میں عظیم مؤرخ البیرونی ان علاقوں میں آیا، البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں مظفرگڑھ کے علاقے سیت پور سے آگے دریائے سندھ اور چناب کے سنگم کے ساتھ واقع مقام کے بارے حیرت انگیز باتیں لکھی ہیں۔اس ضلع کا قدیم ترین قصبہ سیت پور ہے جو سیتا دیوی کے نام پر بسایا گیا تھا ، یہ سیت پور سلاطین دہلی کے عہد میں لودھی نہڑ ریاست کا دارالحکومت تھا یہاں اب بھی شاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان نہڑ موجود ہیں، دیگر اہم تاریخی قصبوں میں خان گڑھ، دائرہ دین پناہ،رنگ پور، مراد آباد، بدھ، سنانواں، علی پور، محمود کوٹ، شاہ جمال اور بصیرہ شامل ہیں۔نواب مظفر خان کے عہد میں خان گڑھ کو ضلعی حیثیت حاصل تھی اور سیت پور، رنگ پور اور سنانواں اسکی تحصیلیں تھیں۔ مظفر گڑھ 1818ء تا 1848ء تک سکھ عملداری میں رہا۔ 1849 ء میں یہ شہر انگریزوں کے زیر تسلط آگیا، انگریز دور میں 1859 ء میں خان گڑھ کی ضلعی حیثیت ختم کرکے مظفر گڑھ کو ضلع بنا دیا گیا۔ سیت پور کی بجائے علی پور اور سنانواں کی بجائے کوٹ ادو کو تحصیل بنا دیا گیا۔ رنگ پور کی تحصیل کی حیثیت ختم کرکے اسے تحصیل مظفرگڑھ میں شامل کردیا گیا، انگریر دور میں لیہ کو بھی مظفر گڑھ کی تحصیل بنا دیا گیا۔ 1952 ء میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم بعدازاں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کیاگیا۔ 1982ء میں لیہ کو مظفرگڑھ سے علیحدہ کرکے الگ ضلع بنادیاگیا۔ اس ضلع کی مقامی زبان سرائیکی ہے، ضلع کی چار تحصیلیں مظفرگڑھ، علی پور، جتوئی اور کوٹ ادو ہیں، کوٹ ادو بھی اب ضلع بن گیا ہے۔ حالیہ مردم شماری2017 ء کے مطابق اس کی آبادی 43 لاکھ ہے ، یہاں قومی اسمبلی کی چھ نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی 12 نشستیں ہیں، ضلع کی زرعی پیداوار میں آم، کپاس، گندم، چنا، چاول اور کماد شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو خطہ دریا اور صحرا کے ساتھ جڑا ہوا ہو وہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہوتا ہے، مظفر گڑھ کو دو دریائوں کے درمیانی علاقے کا شرف کے ساتھ ساتھ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ صحرائے تھل اس میں شامل ہے اور مظفر گڑھ میں ہیڈ پنجند بھی موجود ہے جہاں سب دریا آکر ملتے ہیں۔