وہ وقت میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔میری بہن دشمنوں کے قبضے میں تھی۔اس پر نہ جانے کیا گزر رہی ہوگی! اس کے لیے جلد از جلد کچھ کرنا ضروری تھا لیکن حالات ایسے تھے کہ اسے زیادہ دیرتک دشمنوں کی قید میں رہنا پڑتا۔جیسا میں پہلے لکھ چکی ہوں کہ اس قسم کے معاملات میں عجلت سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ بانو کی طرف روانگی سے پہلے میں ڈیڈی کے کمرے میں گئی۔میں نے دیکھا کہ اس وقت میری والدہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں۔ڈیڈی نے مجھے بتایا کہ انھوں نے والدہ کو خواب آور گولی کھلادی تھی لیکن ان سے یہی کہا تھا کہ وہ صرف سکون پہنچانے والی دواہے۔ رفعت اس وقت بھی گم سم سی نظر آرہی تھی۔ ’’میں یہ بتانے آئی ہوں ڈیڈی کہ میں اسی سلسلے میں کہیں جارہی ہوں! ‘‘میں نے کہا۔ ’’دوبارہ اس کا فون آیا؟‘‘ ڈیڈی نے پوچھا۔ ’’جی ہاں۔وہ ذرا تفصیلی باتیں ہیں۔واپس آکر بتائوں گی۔آپ نے جی ایچ کیو سے بات کی؟‘‘ ’’ہاں ۔‘‘ڈیڈی نے جواب دیا۔’’بتایا گیا ہے کہ وہ ملبہ بڑی احتیاط سے ہٹایا گیا تھا کیونکہ وہاں کاف مین کی کوئی اہم چیز بھی مل سکتی تھی۔کچھ چیزیں قبضے میں بھی لی گئی ہیں لیکن کاف مین کی ڈائری انھیںنہیں ملی۔‘‘ ’’مل بھی نہیں سکتی تھی۔‘‘بانو نے اس وقت کہا جب میں ان کے گھر پہنچ کر انھیں تمام باتوں سے آگاہ کرچکی تھی۔ ’’کیوں؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا تھا۔ ’’وہ میرے پاس ہے۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’آپ کے پاس؟‘‘ مجھے تعجب ہوا ۔’’کیسے؟‘‘ ’’ہر بات میں کیوں اور کیسے مت کیا کرو۔‘‘ بانو اس وقت چڑسی گئیں کیونکہ صورت حال سے ان کا دماغ بھی پریشان تھا‘ پھر بھی انھوں نے جواب دیا۔’’میں تمھارے ساتھ لیبارٹری میں گئی تھی۔تم باہر دیکھنے کے لیے کھڑکی کی طرف چلی گئی تھیں۔اس وقت میں نے وہ ڈائری اپنے قبضے میں لے لی تھی۔‘‘ ’’شکر ہے۔‘‘میں نے اطمینان کی سانس لی۔’’وہ تو ہمارے ملک کے بہت کام آئے گی۔‘‘ میں چونکہ انھیں اپنے خیالات سے بھی آگاہ کرچکی تھی اس لیے وہ بولیں۔’’تم نے بالکل ٹھیک سوچاہے کہ ڈائری یو این او میں بھی دکھائی جاسکتی ہے لیکن یہ موجودہ غدار حکم راں کو نہیں دی جاسکتی۔اس کے لیے ہم صرف آنے والی حکومت پر شاید اعتماد کرسکیں لیکن فی الحال تو طلعت کا مسئلہ آگیا ہے۔وہ ڈائری لیے بغیر طلعت کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ’’لیکن تدبیر تو کچھ ایسی کرنی چاہیے کہ طلعت ہمیں مل جائے اور ڈائری ان لوگوں کو نہ دینی پڑے۔‘‘ ’’تمھارے ذہن میں کوئی منصوبہ آیا ہے؟‘‘ ’’طلعت میری بہت عزیز بہن ہے۔اس کی وجہ سے شاید میرا دماغ قطعی ناکارہ ہوگیا ہے۔‘‘ میری آواز بھی بھرآئی اور آنکھیں بھی جھلملا گئیں۔ ’’صدف!‘‘ بانو کے لہجے میں سختی آگئی۔’’مت بھولو کہ تم ایس آئی ایس کی ایجنٹ ہو۔قوم کی ہر لڑکی تمھاری بہن ہے جس کی حفاظت کرنا تمھارا فرض ہے اور طلعت انھی لڑکیوں میں سے ایک ہے۔‘‘ ’’سوری بانو!‘‘ میں نے اپنی آنکھیں خشک کیں اور اپنی بھراجانے والی آواز پر قابو پاتے ہوئے بولی۔‘‘ اچھا کیا آپ نے کہ میرے جذبات جھنجھوڑ دیے‘ جگادیاہے مجھے! طلعت کی زندگی خطرے میں پڑے یا کچھ بھی ہو‘ ڈائری تو ان لوگوں کو نہیں دی جائے گی۔ ڈائری ہمارے پاس اپنے وطن کی امانت ہے جس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔‘‘ ’’اب تم دوسرے انداز میں جذباتی ہورہی ہو۔‘‘ بانو نے نرم لہجے میں کہا۔’’ایسے موقعوں پر جذباتی ہونے کی بہ جائے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لینا چاہیے۔‘‘ ’’میں سوچتی ہوں اب کچھ۔‘‘ ’’تم نے مسٹر واراب کو اطلاع دے دی؟‘‘ ’’جی ہاں۔یہاں آتے ہوئے راستے سے انھیں فون پر سب کچھ بتادیا۔‘‘ ’’یہ ضروری تھا۔بگ پرسن کو بھی اطلاع مل جائے گی۔‘‘ میں ان کا منہ تکنے لگی۔میرے دماغ میں سوال تھا کہ آخر بانو کب یہ اعتراف کریں گی کہ وہی بگ پرسن ہیں! ’’تم سوچو کچھ! میں ڈائری نکالتی ہوں۔‘‘ میں ان کی خواب گاہ میں تھی۔ وہ اٹھ کر ایک الماری کی طرف بڑھیں۔میں سوچنے لگی کہ شانگلہ تو جانا ہی پڑے گا‘ لیکن یہ سوچنا بھی ضروری تھا کہ طلعت کو ان لوگوں سے کس طرح چھٹرایا جائے! بانو ڈائری نکال لائیں تو میں نے کہا۔’’کچھ اسنائپرز کوہم سے کچھ پہلے وہاں پہنچنا چاہیے۔جو طلعت کو سامنے لائے گا‘ اس کی کھوپڑی اڑادی جائے۔‘‘ ’’تو کیا وہ اکیلا آئے گا؟ یہ سمجھی ہو تم؟‘‘ ’’نہیں‘مقابلہ تو ہوگا!‘‘ ’’جوکچھ تم سوچ رہی ہو‘ وہ آسان نہیں ہوگا۔شانگلہ بلانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں ان لوگوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہوگی۔میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ ڈائری اسے دے کر طلعت کو واپس لیاجائے۔ہاں اگر وہ ڈائری لے کر بھی بے عہدی کرے تو پھر جان پرکھیلنا ہی پڑے گا۔‘‘ ’’ڈائری اسے دے دی جائے؟‘‘ میں حیرت سے بولی۔ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے ڈائری مجھے دیتے ہوئے کہا ۔ ’’ کیا کہہ رہی ہیں آپ!‘‘ میری حیرت برقرار رہی ۔ ’’ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو کہ طلعت کی بازیابی کے بعد ڈائری اس سے واپس کس طرح لی جائے گی ۔ ‘‘ ’’ کیا کریں گی آپ ؟‘‘ ’’ میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو ۔ ‘‘ حسب ِ معمول میں نے ان سے بحث نہیں کی اور کہا ۔ ’’ ٹھیک ہے جو کچھ بھی آپ کریں ۔‘‘ ’’ یہ کام آج ہی رات ہوجانا چاہیے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اس سے رابطہ کرکے کہو کہ.....لیکن نہیں ۔ وہ تمھیں ان نمبروں پر تو نہیں ملے گا جن نمبروں سے بات کرچکا ہے ۔ اس نے وہ موبائل ہی ضائع کردیے ہوں گے ۔ اس قسم کے کاموں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ ’’ وہ نقشہ بھیجے گا وہاں کا جہاں پہنچنا ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ تو پھردن میں ہی جانا پڑے گا ۔‘‘ ’’ اور تم اکیلی ہی جائوگی ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔’’ یہ میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ وہ کل تم سے یقینا رابطہ کرے گا اور تم سے کہے گا کہ اکیلی آنا ۔ ‘‘ ’’ ہوں ۔‘‘ میں نے سر ہلایا ۔ ’’ جب وہ نقشہ تمھیں مل جائے تو اس کی تصویر کھینچ کر مجھے واٹس ایپ کر دینا ، اور اب گھر جائو ۔ وہاں سبھی پریشان ہوں گے ۔ ‘‘ میں ذہنی پراگندگی کے عالم میں بانو کے گھر سے روانہ ہوئی ۔ شانگلہ میں کیا ہنگامہ ہوا ۔ ؟ طلعت بازیاب کی جاسکی ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیئے!