ڈیووس (نیوز ایجنسیاں؍ مانیٹرنگ ڈیسک؍ نیٹ نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر افغان جنگ کے باعث آیا،افغانستان میں جنگ بندی کے امکانات موجود ہیں،ہم نے کچھ اہم فیصلے کئے کہ ہم صرف امن کے ساتھ شراکت داری کریں گے اورکسی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ بدھ کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں پاکستان سٹریٹجی ڈائیلاگ سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا حکومت سرمایہ کاروں کو متاثر کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے اور صنعتوں کو مراعات فراہم کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا ہم سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عالمی بینک کے کاروبار میں آسانیاں فراہم کرنے والے انڈیکس میں اولین ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل ہوا، تاہم اس میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک سال کے عرصے میں غیرملکی سرمایہ کاری 200 فیصد سے زائد تک پہنچ گئی۔انہوں نے بات دہراتے ہوئے کہ ہم دوبارہ تنازع میں نہیں جائیں گے ،سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے علاوہ اب ہم امریکیوں کے ساتھ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا افغانستان میں جنگ بندی کے امکانات موجود ہیں اور یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو وسطی ایشیا میں اقتصادی راہداری کھولنے میں مدد ملے گی۔عمران خان نے کہا میری خواہش رہی جب بھی موقع ملا اپنے ملک کو فلاحی ریاست بناوَں گا۔انہوں نے کہا نائن الیون میں پاکستان کاکوئی لینادینانہیں تھا،ڈونلڈٹرمپ نے میرے موقف پر کوئی جواب نہیں دیا۔انہوں نے کہا ہم نے جب حکومت سنبھالی توکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ انتہاپرتھا،سخت معاشی فیصلوں کی وجہ سے عوام کے سخت رویوں کاسامنا کرناپڑا،ایران ، امریکہ، ایران ،سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،افغان جہاد کے بعد امریکہ چلا گیا اور ہمیں شدت پسندوں کے حوالے کرگیا،افغانستان میں امن کیلئے افغان حکومت اور طالبان کو مل کر بیٹھنا ہوگا،پاک بھارت تعلقات بہتر ہوئے تو بہت ترقی کرینگے ۔انہوں نے کہا میں نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ ایران سے جنگ نہیں ہونی چاہئے مگر ٹرمپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔بعد ازاں وزیراعظم نے عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں امن ہوگا تو وسائل غریب پر خرچ ہوں گے ، اگر بھارت میں متنازع قانون کے خلاف احتجاج بڑھا تو ایل او سی سے توجہ ہٹ جائے گی جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ تباہ کن ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت سرحدی علاقوں کی بحالی کر رہی ہے ، اقوام متحدہ کے مبصرین کو علاقے کا دورہ کرنا چاہئے ، مودی نے 80 لاکھ کشمریوں کو کئی ماہ سے محصور کیا ہوا ہے ، امریکی صدر سے بھی کشمیر کی صورت حال پر بات کی ، ایل او سی پر کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے ۔وزیراعظم نے کہا اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر ثالثی کرے ۔انہوں نے کہا عالمی اداروں کو ایکشن میں آنا چاہئے ۔چینی پالیسیوں کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہیں اور ان پر کھلے عام بات نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے باعث پاکستان میں مہنگائی اور غربت پیدا ہوئی، ماضی میں حکمرانوں نے ملک سے دولت لے جانے کے لئے ادارے کمزور کئے تاہم ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان میں احتساب کا عمل بھی تیز کیا گیا ہے ، انھیں اقدام کی بدولت روپے کی قدر مستحکم ہوئی اور ملک درست سمت میں بڑھ رہا ہے ۔وزیراعظم نے کہا پاکستانی حکومت کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ خارجہ پالیسی کو فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کی حمایت ہے ۔نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے کہا امریکہ سمجھتا ہے کسی بھی مسئلے کا حل طاقت کا استعمال ہے ،ہمیشہ طاقت کے استعمال کی مخالفت کی،میرے موقف کی وجہ سے مجھے طالبان کا حامی بھی کہا گیا،امریکہ کو افغانستان میں ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا،ماضی کی حکومتوں نے امریکاسے وعدے کرکے غلطی کی۔انہوں نے کہا حکومت میں آتے ہی بھارتی وزیراعظم سے رابطہ کیا لیکن بھونڈے طریقہ سے جواب دیاگیا،بھارتی حکمران ہندوتوااورنازی نظریے کے پیروکارہیں،پلوامہ جیسے واقعات دوبارہ رونماہونے کاخدشہ ہے ،ہمیں امریکہ اوربھارت کے تعلقات سے کوئی سروکارنہیں،ایک ارب 30کروڑلوگوں کاملک انتہاپسندوں کے ہاتھ میں ہے ،بھارت کے ساتھ تنازعات کاپرامن طریقے سے حل چاہتے ہیں۔علاوہ ازیں وزیر اعظم سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ،اردنی وزیراعظم، امریکی سیکرٹری برائے ٹرانسپورٹ نے ملاقات کی۔وزیراعظم سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے نومنتخب صدر ماساتسوگو اساکاوا نے بھی ملاقات کی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر نے کہا پاکستان میں اصلاحات کے پروگرام، ٹیکس نظام میں بہتری اور سماجی تحفظ کے احساس پروگرام کیلئے معاونت جاری رکھیں گے ۔وزیراعظم سے سسٹم، ایپلی کیشنز، پراڈکٹ (سیپ) کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کرسٹین کلین،یوٹیوب کی سربراہ سوسین ووجیسکی، فیس بک کی چیف آپریٹنگ افسر، ٹیلی نار کی چیئرپرسن،ٹیکنالوجی کمپنی سیمنز کے سربراہ جو کیسر بھی ملے ۔علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان کی یورپی پارلیمنٹ کے صدر ڈیوڈ ساسولی سے ملاقات، ورلڈ اکنامک فورم کی سائیڈ لائنز پر ہوئی ۔ ملاقات میں اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں مشیر تجارت عبد الرزاق دائود بھی شریک تھے ۔